قومی اسمبلی : تحفظ پاکستان ترمیمی بل کی رپورٹ پیش‘ متحدہ کا کارکنوں کے قتل کیخلاف واک آئوٹ‘ فاٹا ارکان نے مطالبات منوانے کیلئے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا
اسلام آباد (خبرنگار+ ایجنسیاں) متحدہ نے کراچی میں کارکنوں کے قتل اور مسخ شدہ نعشوں کے واقعات کیخلاف قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا۔ نکتہ اعتراض پر سید آصف حسنین نے کہا کہ متحدہ کے کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ 10 روز سے کراچی میں مسخ شدہ نعشوں کے ملنے کا سلسلہ جاری ہے، یہ صورتحال ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت پیدا کی جا رہی ہے، ہم اس پر بھرپور احتجاج کرتے ہیں۔ ہم وزیراعظم اور چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سازش کو روکا جائے۔ وزیر مملکت متحدہ کے ارکان کو منانے گئے مگر وہ اجلاس کے خاتمے تک ایوان میں نہیں آئے۔ فاٹا کے ارکان نے اپنی تجاویز پر کمیشن قائم کئے جانے تک قومی اسمبلی کے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ نکتہ اعتراض پر حاجی شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ پوری دنیا فاٹا کے نام پر سیاست کر رہی ہے۔ فاٹا کے عوام کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں، ہم نے فاٹا کی ترقی کیلئے حکومت کو بعض تجاویز دی ہیں مگر ان کا جواب نہیں دیا گیا۔ وزیراعظم 5 ماہ سے فاٹا ارکان کو ملاقات کا وقت نہیں دے رہے، جب تک ہماری تجاویز پر کمیشن قائم نہیں کیا جاتا ہم کارروائی کا بائیکاٹ کرینگے۔ اس کے ساتھ ہی فاٹا کے ارکان ایوان سے واک آئوٹ کرگئے۔ وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے ایوان کو بتایا کہ پیمرا نے غیر اخلاقی اور فحش پروگرام نشر کرنے پر مختلف سیٹلائٹ ٹی وی چینلز پر جرمانے عائد کئے تاہم عدالتوں کے حکم امتناعی کی وجہ سے ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ مختلف سرکاری اداروں کے ذمہ اشتہاری ایجنسیوں کے بقایا جات کی تصدیق اور ادائیگی کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو یہ کام کر رہی ہے۔ وقفہ سوالات کے دوران شیر اکبر خان کے سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے بتایا کہ نیشنل براڈ کاسٹر کے چینلز پیمرا کے ریگولیٹری دائرہ کار میں نہیں آتے، ٹی وی چینلز پروگراموں کو سنسر کرنے کا اختیار پیمرا کے پاس نہیں۔ پیمرا میں کونسل آف کمپلینٹ وفاقی و صوبائی سطح پر موجود ہے اور اس کے پاس آنے والی شکایات پر وہ کارروائی کا فیصلہ کرتی ہے۔ جمشید احمد دستی کے سوال پر وزیر اطلاعات نے بتایا کہ وزارت اطلاعات اپنے ذمہ بقایا جات بروقت ادا کرتی ہے، دیگر وزارتوں کے ذمہ بقایا جات ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بعض محکمے صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں، ان کے ذمہ بھی بقایا جات ہیں، کچھ میڈیا پرسنز سپریم کورٹ گئے جس کے بعد ان کی تصدیق کا کہا گیا، یہ کام شروع ہے اور جس کی تصدیق ہو رہی ہے وہ ادائیگی کی جا رہی ہے۔ وزیر انچارج کابینہ سیکرٹریٹ شیخ آفتاب احمد نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ پی آئی اے کے فلیٹ میں 11 نئے جہاز لیز پر لے کر شامل کئے جا رہے ہیں۔ اضافی ملازمین ہونے کے باوجود کسی کو بیروزگار نہیں کیا جائے گا۔ پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنائیں گے۔ وفاقی دارالحکومت کی حدود میں قائم 25 غیر قانونی کچی بستیوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت عملی اقدامات کرتی ہے، کرپشن کا دور اب نہیں آئے گا جن اداروں کے سربراہ نہیں ہیں ایک ماہ میں موزوں افراد ڈھونڈ کر تعینات کر دیئے جائیں گے۔ وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے بتایا کہ ادویات کی قیمتوں کا معاملہ حساس ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرنا ہے، 18 بڑی کمپنیوں نے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے۔ میڈیا میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی شرح بڑھا چڑھا کر پیش کی ہے۔ وزیراعظم نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔قومی اسمبلی میں سٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی دوسری سہ ماہی برائے سال 2013-14ئ، تحفظ پاکستان ترمیمی بل 2014ء پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹس پیش کر دی گئیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ایوان میں جو بھی رپورٹ آتی ہے اس پر بحث کیلئے وقت طے کیا جاتا ہے، دو رپورٹس پیش کی گئی ہیں اس حوالے سے ایوان کو آگاہ کیا جائے کہ ان پر بحث کب ہوگی، جس پر وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ حکومت رپورٹوں پر بحث کیلئے تیار نہیں ہے ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار موجود نہیں ہیں، بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں فیصلہ کر کے اگلے اجلاس میں اس پر بحث کر لیں۔ مولانا امیر زمان نے کہا کہ تحفظ پاکستان بل پر ہمارے تحفظات ہیں۔پیپلز پارٹی نے رینٹل پاور منصوبوں کا نام تبدیل کر کے دوبارہ شروع کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے وضاحت طلب کر لی۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ ماضی میں رینٹل پاور منصوبوں کے حوالے سے شور مچایا گیا سپریم کورٹ کے ذریعے غیر قانونی قرار دیا گیا۔ ترکی کی کمپنی نے دو ارب کے ہرجانہ کا دعویٰ بھی کیا ان کا نام تبدیل کر کے دوبارہ یہ منصوبہ شروع کرنے کی سمری بھجوائی گئی ہے حکومت کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے ایوان کو بتایا کہ دوران ملازمت معذور ہو جانے والے ایسے ملازمین کو ان کی معذوری کو مدنظر رکھ کر کام دیا جاتا ہے مگر جو ملازمین مکمل طور پر معذور ہو جاتے ہیں اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتے انہیں پنشن سمیت دیگر تمام واجبات اور مراعات دیکر فارغ کر دیا جاتا ہے، اس حوالے سے پالیسی موجود ہے، ایسے ملازمین کے بچوں یا اس کی بیوی کو گریڈ 1 سے 10 تک ملازمت دی جاتی ہے۔