فیصلہ عدالت کو کرنا ہے یا انتظامیہ کو؟ نئی بحث شروع
خصوصی عدالت نے غداری کیس میں’’ بالآخرصدر‘‘ جنرل پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کر دی ہے جنرل(ر)مشرف پچھلے تین ماہ سے مختلف حیلوں بہانوں سے خصوصی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو رہے تھے عدالت میں پیشی سے بچنے کے لئے فوج کے ادارہ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ میں ’’پناہ‘‘ لے رکھی تھی عدالت میں پیشی سے بچنے کے لئے کبھی ’’عارضہ قلب‘‘ میں مبتلا ہونے کا بہانہ تراشہ کرتے رہے اورکبھی اچانک طبیعت بگڑ جانے سے ’’آئی سی یو‘‘ میں داخل ہو کر لمبی مدت کیلئے عدالت میں پیشی سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن خصوصی عدالت کی طرف سے31مارچ2014ء کو پیش نہ ہونے پر گرفتار کر کے لانے کا حکم ’’کارگر‘‘ثابت ہوا جس پر انہیںآخر کار پولیس اور رینجرز کی نگرانی میں عدالت میں پیش ہونا ہی پڑا۔ عام تاثر یہ تھا کہ جنرل (ر)مشرف 35 ویں پیشی پر بھی نہیں آئیں گے ان کو فوج کی ’’پشت پناہی‘‘ حاصل ہے اور فوج اپنے سابق ’’سپہ سالار ‘‘ کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں ہونے دے رہی اور اب تک جنرل (ر)پرویز مشرف اپنے ادارے کی’’ آشیرباد‘‘ سے پیش نہیں ہو رہے لیکن پیر کو جنرل (ر) مشرف کے عدالت میں پیش ہو نے کے بعد یہ تاثر دور ہو گیا کہ پاکستان آرمی ان کی عدالت میں پیشی کی راہ میں حائل ہے۔ جنرل (ر) مشرف کی عدالت میںپیشی سے جہاں سول حکومت کی رٹ قائم ہوئی ہے وہیں خصوصی عدالت کے حکم کی عمل داری بھی ثابت ہو ئی ہے۔ جسٹس طاہرہ صفدر نے آئین شکنی کے پانچ الزامات پر مشتمل فردِ جرم پڑھ کر سنائی تاہم ملزم نے صحتِ جرم سے انکار کر دیا۔ مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے ان کی والدہ کی علالت پر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی درخواست پیش کی جسے بعد ازاں خصوصی عدالت نے مسترد کر دیا ۔پراسیکیوٹر نے درخواست کی مخالفت ا میںکہا کہ خصوصی عدالت کو انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا اختیار نہیں، ملزم کو سپریم کورٹ سے اجازت لینا ہوگی۔ جنرل (ر) مشرف نے عدالت میں کہا کہ اگر مجھ پر غداری کا الزام ہے تو قومی خزانہ لوٹنے والے بھی غدار ہیں۔سابق صدر پر عائد کردہ فرد جرم میں قرار دیا گیا کہ ملزم نے پی سی او کے تحت سابق چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججز کو برطرف کیا‘ اس آرڈر کے تحت آئین میں 270 ٹرپل اے کی شق شامل کی گئی‘ سابق صدر نے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر پاکستان کے آئین کو معطل کیا‘ فروغ نسیم نے عدالت سے استدعا کی کہ مقدمے کی مزید سماعت آٹھ ہفتے کے لئے ملتوی کردی جائے۔لیکن عدالت نے سماعت دو ہفتے کے لئے ملتوی کرنے کی منظوری دی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی نے کہا ہے کہ سابق صدر پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد اب کیس معمول کے مطابق آگے بڑھے گا ‘ پرویز مشرف دفاع میں کوئی گواہ پیش کرنا چاہتے ہیں تو کرسکتے ہیں ۔ سماعت کے بعد رات گئے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں افواہ گردش کرنے لگی کہ جنرل (ر)پرویز مشرف کو متحدہ عرب امارات لے جانے کے لئے طیارہ آگیا ہے لیکن یہ’’ افواہ محض افواہ‘‘ ہی رہی اگلے روز طیارہ واپس متحدہ امارات چلا گیا۔ منگل کے روز وزیر اعظم محمد نواز شریف نے پارٹی کے اہم رہنمائوں کا ہنگامی اجلاس طلب کر اس صورت حال پر سوچ بچار کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے بارے میں درخواست کا معاملہ اجلاس میں بطور خاص زیر غورتھا ۔اجلاس میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کے لئے ’’ محفوظ راستہ ‘‘ دینے کی تجویز کو مسترد کر دیا اور کہا ہے جنرل(ر) پرویز مشرف’’ قومی مجرم ‘‘ہے اس کے ساتھ عوام کی خواہشات کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ پارٹی کی قیادت نے واضح کیا کہ ’’ اگر اس وقت جنرل(ر) مشرف کو کوئی ریلیف دیا گیا تو اس کے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ہمیں خصوصی عدالت کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہیے اس سلسلے میں اندرونی و بیرونی کوئی بھی دبائو بلا جواز ہو گا۔ جنرل پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینے پر پارٹی قیادت ایک ’’صفحہ ‘‘ پر موجود تھی مسلم لیگی رہنمائوں نے متفقہ طور فیصلہ کیا ہے کہ جنرل(ر) پرویز مشرف کو آئین شکنی پر عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے لہذا کسی انتظامی حکم کے ذریعے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی بجائے جنرل (ر) مشرف کی قسمت کا فیصلہ عدالت کو کرنا چاہیے ۔مسلم لیگی رہنمائوں کے اجلاس میں حکومت نے جنرل مشرف کو راہ فرار نہ دینے کا فیصلہ کرکے پارٹی کو سیاسی جماعتوں کی تنقید سے بچا لیا ہے۔ سر دست ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی جس کو جواز بناکر حکومت جنرل مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دے ۔
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ جنگ بندی کی ایک ماہ کی مدت ختم ہو گئی ہے۔ ابھی تک طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں توسیع کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ جنگ بندی میں توسیع کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے گا جنگ بندی میں توسیع کا واضح اعلان نہ ہونے پر بعض گروپ پرتشدد کارروائیاں شروع کر سکتے ہیں۔جو پہلے ہی ان مذاکرات کو مجبوراً قبول کر رہے تھے ۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ طالبان کو کچھ شکایات ہیں جن کا حکومت ازالہ کر رہی ہے۔حکومت کے ساتھ کسی بھی معاہدے کی صورت میں تمام گروپ اس پرکاربند رہیں گے، طالبان سے الگ کسی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی اور طالبان کی اگلی ملاقات کا فیصلہ وزیر اعظم محمد نواشریف کریں گے،،قیدیوں کی رہائی کا عمل جلد شروع ہو نے کا امکان ہے اس بارے میں وزیر اعظم محمد نواز شریف اور فوج کے سپہ سالار جنرل پرویز مشرف کے درمیان اہم ملاقات ہو چکی ہے ۔ ابھی تک حکومتی فیصلہ سامنے نہیں آیاقیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں کوئی حتمی بات کہی جا سکے گی۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ طالبان نے نہیں کیا بلکہ یہ ان کی اپنی خواہش ہے۔ اگر کسی کو بغیر ثبوت گرفتار کیا گیا ہے تو اس کی رہائی پر غور کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جب کہ مولانا سمیع الحق پر امید ہیں ان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی پر جلد پیش رفت کا امکان ہے۔
جماعت اسلامی کے ارکان نے ثمر باغ کے سراج الحق کوپانچ سال کے لئے اپنی جماعت کا امیر منتخب کر کے سیاسی حلقوں کو کھلبلی مچا دی ہے سراج الحق ’’ڈارک ہارس ‘‘ ثابت ہوئے اور تمام سیاسی تجزیہ کاروں کے اندازے غلط ثابت ہو گئے ۔سراج الحق کے امیر بننے کے بعد جماعت اسلامی اور ایسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو گا سید منور حسن نے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں آئندہ مدت کے لئے امارت کے انتخاب میں حصہ لینے میں معذوری کا اظہار کر دیا تھا لیکن مرکزی مجلس شوریٰ نے پھر بھی ان کانام ان تین ناموں میں شامل کر دیا تھا ۔سید منور حسن کے دور میں جماعت اسلامی اور فوج کے درمیان ’’کشیدہ تعلقات‘‘ رہے ہیں جماعت اسلامی کے ارکان بھی انتخابی نتائج پر حیرت زدہ ہیںجماعت اسلامی میں امارت کے انتخاب کے لئے لابنگ کی اجازت نہیںتاہم روایت یہ تھی کہ ارکان موجودہ امیر کو ہی منتخب کریں گے ۔لیکن نتائج نے جماعت اسلامی کی قیادت تبدیل کر ڈالی ہے۔ سراج الحق کے امیر بننے کے بعد جماعت اسلامی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا امکان ہے سید منور حسن ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سیاست دان تھے انہوں نے اپنی امارت کے دوران جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصور ہ کے مہمان خانہ میں ہی قیام کیا اسی طرح وہ پورا سال سفر میں رہتے تھے سفر کے دوران ’’ شاہانہ انداز ‘‘میںرہائش اختیار کرنے کی بجائے جماعت اسلامی کے مہمان خانہ میں قیام کو ترجیح دیتے تھے ۔امارت کے انتخابات میں سراج الحق ،سید منور حسن اور لیاقت بلوچ کے درمیاں سخت مقابلہ ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کی الیکشن کمیٹی نے 5اپریل 2014ء کوانتخابی نتائج کا اعلان کرنا تھا لیکن میڈیا میں قیاس آرائیوں سے بچنے کے لئے اتوار کو ہنگامی بنیادوں پر انتخابی نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ سراج الحق میدان سیاست میں سید منور حسن اورلیاقت بلوچ سے جونئیر ہیں اس بات کا قوی امکان ہے سراج الحق بھی لیاقت بلوچ کو دوبارہ سیکریٹری جنرل کی ذمہ داری سونپیں گے تاہم سید منور حسن ،عالمی اسلامی تحاریک کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے تعلق کو مضبوط بنانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جماعت ہے جہاں موروثی طور پر امارت نہیں دی جاتی۔ اب دیکھنا یہ ہے جماعت اسلامی کے ارکان کا فیصلہ جماعت اسلامی کی سیاست پر کس حد تک ’’ مثبت یا منفی‘‘ اثرات مرتب کرتا ہے اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا۔