• news

ڈیڑھ ارب ڈالر کی سعودی امداد پراپیگنڈہ مہم!

صدرمملکت ممنون حسین کا فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی تقریب سے خطاب ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ2008ء میں جب ملک میں پیپلزپا رٹی کی  حکومت تھی تو پاکستان کے بیرونی قرضے 6700 ارب روپے تھے جو اس حکومت کے رخصت ہونے تک بڑھ کر 14800 ارب روپے ہو گئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ(ن) کو اقتدار میں آنے کے بعد گذشتہ حکومت کی طرف سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں کی ادئیگی کے لئے خود بھی بین الاقوامی قرضوں کے حصول کے لئے ’’کشکول‘‘ اٹھانا پڑا۔ صدر ممنون حسین نے اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ موجودہ حکومت ’’کشکول‘‘ کو توڑنا چاہتی ہے لیکن جو مالیاتی کلچر اور ملک کا خالی خزانہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا اس کی وجہ سے ملک کے اس وزیراعظم کو آئی ایم ایف  سے مزید قرض کے لئے رجوع کرنا پڑا۔ حالانکہ انہوں نے اپنے سابقہ دور ، فروری 1997ء میں اقتدار میں آتے ہی بین الاقوامی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ مہم شروع کی تھی۔ صدر ممنون حسین نے گذشتہ  برسوںکی بدعنوانیوں پر تنقید کرتے ہوئے نوید سنائی کہ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب ’’کشکول‘‘ توڑ دیا جائے گا اور یہ کام مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہی کرے گی۔ قیام پاکستان سے 2012ء تک 64 برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو 68 ارب ڈالر امداد دی لیکن فی سال اس ایک ارب ڈالر کی امداد کے عوض پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا گیا۔ امریکی حکام اس دوران جس جس ملک کا دورہ کرتے رہے پاکستان کو دی گئی امداد کا وہاں وہاں تذکرہ ضرور کرتے رہے ۔ اس طرح پاکستان کو نہ صرف بہت زیادہ بدنام کیا گیا بلکہ امریکہ نے  اس  امداد کی آڑ میں پاکستان کی خودمختاری تک بھی رسائی حاصل کر لی۔ امریکہ کی طرف سے 2012ء تک ملنے والی امداد میں پاکستان کو معاشی امداد کی صورت میں 41   ارب ڈالر جبکہ باقی 26 ارب ڈالر سے زائد کی امداد افواج پاکستان کی ضرورتوں کے لئے دے گئی۔ امریکہ نے پہلی بار 7 لاکھ 70 ہزار ڈالر کی رقم معاشی مدد کے طور پر دی اور ساتھ ہی پاکستان کی حکومت سے سویت یونین کی جاسوسی کے لئے پاکستان کے اڈے استعمال کرنے کی فرمائش بھی کر دی مگر اس وقت کے وزیراعظم شہید لیاقت علی خان نے امریکہ کو ملک کے ہوائی اڈے استعمال کرنے سے روک دیا تھا ۔کیونکہ قائد ملت لیاقت علی خان کو پاکستان کی طرف سے امریکہ کا آلہ کار بننا پسند نہ تھا اس لئے امریکہ ان سے ناراض ہو گیا۔  پھر 16/ اکتوبر 1951ء  میں جب وہ راولپنڈی میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ کی صدارتی تقریب  سے خطاب کرنے والے تھے، ابھی کھڑے ہی ہوئے تھے کہ ان پر گولی چل گئی اور وہ شہید ہو گئے۔ اقتدار نشینوں میں تبدیلی آئی تو امریکہ نے پاکستان کے خلاف اپنی ناراضگی ختم کر کے امریکی ڈالروں سے پاکستان کی امداد کا سلسلہ پھر شروع کر دیا۔ یہ  جنرل ایوب خان کا دور تھا جب امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے پاکستان کے فوجی اڈوں تک پہلی بار رسائی مل گئی۔ مگر 1965ء کی جنگ کے بعد پاکستان کے لئے امریکی امداد میں کمی آنا شروع ہو گئی اور 1974ء میں جب پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’گھاس کھا کر زندہ رہ لیں گے لیکن ہم بھی ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘ تو امریکہ نے پاکستان کے جوہری عزائم کو بنیاد بنا کر اس پر پابندیاں لگا دیں ۔ جس کے بعد1979ء تک پاکستان کی مالی امداد کا سلسلہ بالکل  ختم ہو کر رہ گیا۔ دسمبر 1979ء میں سوویت فوجوں کی افغانستان پر چڑھائی نے پاکستان کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کر دیا اور امریکہ 1982ء میں پاکستان کی امداد کرنے پر مجبور ہو گیا۔ 1983ء سے 1988ء تک یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ پاکستان کو سالانہ ایک ارب ڈالر تک امداد ملنا شروع ہو گئی۔ لیکن افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلاء کے بعد امریکہ نے خطے سے تعلق ختم کر کے اکتوبر 1990ء میں پاکستان پر ایک مرتبہ پھر معاشی پابندیاں لگا دیں ۔  1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں امریکہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کو اس  کے حامی ممالک تک بڑھا دیا گیا ۔تاہم 2001ء میں ’’نائن الیون‘‘ کے رونما ہونے کے بعد امریکہ نے نام نہاد ’’عالمی دہشت گردی‘‘   افغانستان میں اسامہ بن لادن اور  القاعدہ کی موجودگی کو جواز بنا کر کابل  میں طالبان حکومت کے خاتمے کے لئے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر مہربان ہو جانے کا ڈرامہ رچایا اور اس کی امداد کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس امداد کے عوض سابق صدر جنرل پرویزمشرف نے نام نہاد ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کی جنگ میں  مختلف ممالک کو اپنا عسکری اتحادی بنا کر پاکستان کو امریکہ کی اس جنگ میں فرنٹ لائن پر دھکیل دیا۔  اس کے بعد نا صرف جنرل مشرف نے امریکہ اور نیٹو افواج کوپاکستان کے فوجی اڈوں سمیت کراچی کی بندرگاہ کو نیٹو افواج کی لاجسٹک سپورٹ کا کھلا پروانہ دے دیا  بلکہ  اس کی کھلی امداد نے ان مجاہدین کی باقیات کو پاکستان کے خلاف مشتعل کر دیا جو  1980ء کے عشرے  سے مختلف ناموں سے افغانستان اورپاکستان میں  موجود تھے۔ افغانستان پر  میزائلوں کی بوچھاڑ امریکہ کرتا رہا جبکہ اس سزا آج تک پاکستان کے عوام بھگت  رہے ہیں ۔ کابل کی طالبان حکومت توافغانستان کے پہاڑوں کی طرف چلی گئی لیکن امریکہ اور نیٹو افواج کی بمباری سے   القاعدہ کے ارکان سمیت جنگجوؤں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک کے بعد دوسری مزاحمتی تنظیم بنا لی۔ جسے خود امریکہ نے بھارت کے ذریعے اسلحہ اور ڈالر فراہم کر کے پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں کی راہ پر لگا دیا۔ تاکہ پاکستان عسکریت کے ہاتھوں اقتصادی لحاظ سے کھوکھلا رہے اور امریکہ اس کے حکمرانوں کو ڈالروں کی بھیک سے اپنے عزائم اور ایجنڈے کے مطابق استعمال کرتا رہے۔ جنرل مشرف کے دور حکومت اور امریکی ایجنڈے کے تسلسل میں آج ملک کا بال بال قرضوں کے بوجھ میں الجھا ہوا ہے۔ ملک میں پیپلز پارٹی کا  پانچ سالہ دور اقتدار مکمل ہوا  اور  میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم بنے تو پاکستان سر سے پاؤں تک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے لتھڑا ہوا تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے انہی قرضوں کے حوالے سے صدر ممنون حسین نے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے 40ویں اجلاس کے صدارتی خطبے میں قوم کو یہ نوید سنائی ہے کہ بالاخر مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملک اور قوم کو غیرملکی قرضوں کی زنجیر سے آزاد کرانے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے آگے پھیلائے گئے ’’کاسہ گدائی‘‘ کو توڑ کر ملک کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ صدرممنون حسین کے اس عزم کے مطابق پاکستان مستقبل قریب میں اقتصادی لحاظ سے مستحکم ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف سعودی حکمرانوںکے بہت زیادہ قریب ہیں اور یہ سعودی حکمران تھے جنہوں نے انہیں جنرل پرویزمشرف کے دوراقتدار میں سفارتی  افہام و تفہیم کے ذریعے  ان کیلئے اپنے ہاںسیاسی پناہ کا اہتمام کیا تھا۔ اب سعودی حکمرانوں نے پاکستان کو اس کے موجودہ اقتصادی بحران سے نکلنے کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد عطا کی ہے جو ناقابل واپسی بھی ہے اور حکمرانوں کے بقول اس امداد کے عوض سعودی عرب نے پاکستان سے کسی قسم کی رعایت یا کوئی عسکری حمایت بھی طلب نہیں کر رکھی  ۔ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر پاکستان کو موصول ہو چکے ہیں اور یہ اسی خطیر سعودی امداد کا کرشمہ ہے کہ امریکی ڈالر جو ایک سو آٹھ نو روپے میں فروخت ہو رہا تھا اس کی قیمت 98 روپے فی ڈالر سے بھی نیچے آ گئی ہے۔ اصولاً چاہیے تو یہ تھا کہ سعودی عرب سے ملنے والی اس امداد کے بعد حکومت آئی ایم ایف کے سامنے پھیلائے گئے’’کشکول‘‘ کو سمیٹ کر خود کو بین الاقوامی قرضوں سے نکالنے کی کوشش کرتے لیکن حکومت ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر ملنے کے باوجود خود کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ حصار  سے نکال نہیں سکی۔  چنانچہ حکومت نے رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں آئی ایم ایف کی طے شدہ قسط بھی وصول کر لی ہے۔ حکومت قومی اسمبلی میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی اس غیر ملکی امداد کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی ہے کہ اسے یہ رقم کیوں ملی ہے جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ پاکستان کو یہ کثیر رقم عالمی سطح پر شیعہ سنی اختلافات بڑھا کر اسلامی دنیا میں خلفشار پیداکرنے کے لئے ملی ہے۔  سعودی عرب پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے  اگرچہ بین الاقوامی یہودی صیہونی لابی کے معاشی شکنجے میں جکڑی شیطانی طاقتیں اس امداد پر پراپیگنڈہ کر رہی ہیں لیکن افسوس اس کھیل میں ’’ہم‘‘ خود بھی شامل ہیں۔ خدا کرے کہ صدرمملکت کے وعدے کے عین مطابق کشکول توڑ دیا جائے پھر بھی اس ضمن میں سعودی عرب جیسے  برادر اسلامی ملک سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں!

ای پیپر-دی نیشن