جنوبی پنجاب میں سول سیکرٹریٹ کا قیام
جنوبی پنجاب میں سول سیکرٹریٹ کے قیام کیلئے ان دنوں قانون سازی کا عمل جاری ہے اور سینیٹر ملک محمد رفیق رجوانہ کی سربراہی میں سب کمیٹی نے صوبائی حکمرانوں کی آشیرباد کے ساتھ سیکرٹریٹ کے قیام کیلئے اصولی فیصلہ بھی کر لیا ہے اور صوبائی وزارت قانون نے ترامیم کے لئے ابتدائی خاکہ بھی تیار کیا ہوا ہے۔ ان سفارشات پر عمل درآمد اب مہینوں نہیں دنوں کی بات ہے۔ یہ بات سب کمیٹی کے ارکان کی جانب سے کہی جا رہی ہے لیکن حقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں۔ سب کمیٹی جب ان مراحل سے گزرے گی تو اسے احساس ہو گا کہ یہ ایک کٹھن راستہ ہے۔ صوبے کے قیام کا مسئلہ نیا نہیں 30 سال سے زائد عرصہ گزرا کہ ملتان میں قاری نورالحق قریشی مرحوم نے اس مطالبے کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے جو کچھ کام کیا تھا مرحوم تاج محمدخاں لنگاہ نے آگے بڑھایا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ملتان اور ڈیرہ غازیخان ڈویژنوں میں درجنوں جماعتیں سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا نکتہ نظر ایک ہے لیکن مفادات الگ الگ ہیں۔ شخصی ٹکراؤ کی کیفیت سے اس مطالبے کی امین جماعتوں میں تقسیم در تقسیم کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ ماضی میں یہ کوششیں ہوتی رہیں کہ ان جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیا جائے لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ مرحوم تاج محمد خاں لنگاہ نے پارٹی کی سربراہی سنبھالنے کے بعد جتنے بھی الیکشن لڑے وہ ان میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سرائیکی صوبے کے نام پر جتنے بھی لوگوں نے الیکشن لڑا اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ حیرت انگیز طور پر بری شکست سے دوچار ہوتے رہے۔ مرحوم تاج محمد خاں لنگاہ نے ایک الیکشن پیپلزپارٹی کی حمایت سے بھی لڑا لیکن اس میں بھی کامیابی نہ ہو سکی۔ اس صورتحال میں 2008 ء کے الیکشن کے بعد اس مطالبے کو اس وقت پذیرائی حاصل ہوئی جب ملتان سے کامیاب ہونے والے سید یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی صوبے کی آواز بلند کی تھی۔ آج اس خطے کے ہر فرد کو یقین ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جو شوشہ چھوڑا تھااس کے پس منظر میں مسلم لیگ ن کی قوت کو تقسیم کرنا اور 2013 ء کے انتخابات میں اس سے فائدہ اٹھانا پہلی شق تھی۔ یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ پیپلزپارٹی کے قائدین کو یقین تھا کہ وہ سرائیکی صوبے کی تحریک کو جس سطح پر لے جا چکے ہیں اس سے کم از کم اس خطے میں ان کا مستقبل محفوظ ہو گیا ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کے عزائم کی راہ میں بہاولپور صوبہ کی بحالی کی تحریک نے بند باندھ دیا اور عین اس وقت جب لوگوں کا خیال تھا کہ سرائیکی صوبے کا قیام اب دنوں کی بات رہ گئی ہے۔ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ پھر پیپلزپارٹی کی حکومت چلی گئی۔
بہاولپور صوبے کی بحالی کے مطالبے والوں میں سے کچھ تحریک انصاف میں چلے گئے اور 2013 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے اس مسئلے کو حل کرنے کے وعدے کے ذریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی۔ معاملہ اس حد تک ٹھنڈا پڑ گیا کہ مسلم لیگ ن اگر یہ چاہتی کہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ وقت گزار لیا جائے تو یہ بھی ممکن تھا لیکن انہوں نے اپنی حکومت کے قیام کے پہلے سال کے دوران ہی ایک درمیان کا راستہ تلاش کر لیا اور ایک 64 رکنی کمیٹی بنائی جس میں آگے سب کمیٹیاں بھی ہیں۔ یہ سب کمیٹیاں حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی گائیڈ لائن کے مطابق کام کر رہی ہیں۔ دراصل سرائیکی صوبہ کا قیام اور بہاولپور صوبے کی بحالی کے پس منظر میں سب سے اہم جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ راجن پور اور رحیم یار خاں جیسے اضلاع کے عوام کو اپنے مسائل کے حل کیلئے پانچ سو کلومیٹر سے زائد سفر طے کر کے لاہور جانا پڑتا ہے۔ دوسرا جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ اس خطے کے وسائل صوبے کے دیگر حصوں پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ خطہ پسماندہ رہ گیا ہے اور مسلسل محرومیوں کا شکار چلا آرہا ہے۔ راجن پور اور رحیم یار خاں اضلاع واقعی لاہور سے دور ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ خطہ ہمیشہ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں موجود رہا ہے۔ اصل قصور ان کا ہے جو اونچے ایوانوں تک تو پہنچے لیکن پھر اپنے علاقے کوبھلا بیٹھے۔ لغاری‘ مزاری‘ کھوسے‘ دریشک‘ کھر صاحبان‘ دستی خاندان گورمانی فیملی‘ گیلانی‘ قریشی اور بہاولپور کے نوابزادے پاکستان کی صدارت ‘وزارت عظمیٰ اور وفاقی و صوبائی وزارتوں پر ہمیشہ رہے لیکن اس خطے کے عوام ترقی کیلئے ترستے رہے۔ ڈیرہ غازیخان اور راجن پور اضلاع میں متعدد ایسے علاقے موجود ہیں جہاں آج بھی پینے کا پانی کئی کئی میل سے لانا پڑتا ہے۔ جہاں نہ سڑکیں ہیں نہ ٹرانسپورٹ‘ ان علاقوں کے دور دراز علاقوں میں چند سال قبل تک لوگ وہ لباس پہنے نظر آجاتے تھے جو مغلوں کے دور میں پہنے جاتے تھے۔ ان حالات میں جنوبی پنجاب کے عوام کے مسائل کو ان کی دہلیز پر حل کرنے کیلئے سول سیکرٹریٹ کے قیام کا فیصلہ غنیمت ہے۔
حکمران تو یہ کڑوا گھونٹ پینے کیلئے تیار ہو گئے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیوروکریسی اس کے لئے اب تک تیار نہیں ہوئی اور اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ سفارشات کی تیاری کے دوران وہ اپنے کرتب ضرور دکھائے گی اور جنوبی پنجاب میں لنگڑا لولا سیکرٹریٹ بنانے کی کوشش کرے گی۔ ابھی تو یہ انتہائی اہم مرحلہ بھی باقی ہے کہ یہ سیکرٹریٹ کہاں قائم ہو۔ اس پر کافی زور آزمائی ہونی ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ سیاسی دباؤ سے آزاد ہو کر فیصلے کئے جائیں اور ایک ایسی سب کمیٹی بھی قائم کی جائے جو ہر قسم کے معاملات اور تعصبات سے بالاتر ہو کر فیصلہ کرے ورنہ یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ دوسرا اہم مرحلہ یہ ہے کہ کس کس وزارت کے جوائنٹ سیکرٹری جنوبی پنجاب میں بیٹھیں گے۔ اس میں پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ تمام صوبائی وزارتوں کے ایڈیشنل سیکرٹری مجوزہ سیکرٹریٹ میں ہونے چاہئیں۔ اور یہ سیکرٹریٹ بااختیار بھی ہونا چاہئے۔ اگر یہاں سے بھیجی گئی درخواستوں پر لاہور میں بیٹھے سیکرٹری یا چیف سیکرٹری نے ہی احکامات جاری کرنے ہیں تو معاملہ وہیں کا وہیں رہ جائے گا۔ بااختیارسول سیکرٹریٹ ہی اس خطے کے عوام کی محرومیوں کا مداوا کر سکتا ہے۔ جس سے عوام کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔ لہٰذا اس کام کوخلوص نیت سے انجام تک پہنچانا ہو گا۔