گمشدہ ملائشین طیارہ‘ لیلیٰ خالد اور انصار برنی
ملائشین طیارہ فضائوں میں گم ہو گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کھلی فضائوں میں بھی چھپنے گم ہونے کی کئی جگہیں ہیں۔ اس پر بھی ریسرچ ہو گی اور ریسرچ مغربی ٹیکنالوجی والے اپنی مرضی کی کرتے ہیں۔ کیوں نہ کریں۔ اس میں ہماری مرضی کیوں چلے گی۔ ہم تو ان ایجادات کو استعمال کریں گے اور اپنی امارت کا رعب اپنوں پر جمائیں گے۔ ہمارے پاس یہ رویے بھی ان کی ہی ’’مہربانی‘‘ سے آتے ہیں۔
پہلے طیارے اغوا ہوتے تھے۔ گم ہونے کے لئے بھی اغوا کیا جاتا ہے۔ مجھے عظیم بہادر فلسطینی حریت پسند فریڈم فائٹر لیلیٰ خالد یاد آئی کہ جس نے ظالم اور غاصب اسرائیلیوں کا طیارہ اغوا کیا تو پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک مسیحی فلسطینی خاتون ہیں۔ وہ بہت خوبصورت تھی اور اس واقعے کے بعد تو وہ دنیا کی سب سے دلیر اور دلبر عورت بن گئی۔ فلسطین میں مسیحی بھی ہیں اور وہ مسلمانوں کی طرح حریت پسند اور فریڈم فائٹر ہیں۔ میں ویتامیوں کو بھی سلام کرتا ہوں جنہوں نے برسوں تک بے سروسامانی میں اپنی آزادی کے لئے جنگ لڑی اور سرخرو ہوئے۔ سرشار بھی ہوئے۔ فلسطینی حریت پسند لیڈر ہوچی منہ دنیا کے چند بڑے لوگوں میں سے ایک ہیں۔ وہ شاعر بھی تھے اور جنگجو بھی تھے۔ جرنیلوں حکمرانوں اور سیاستدانوں کو شعر و ادب کا ذوق ہونا چاہئے بلکہ شوق فراواں ہونا چاہئے۔ ہوچی منہ کی ایک نظم سے ایک لائن حاضر خدمت ہے جو اپنی ثقافت اور اپنی ثقافت اور اپنی ثقافت کی آزادی کے لئے جان لڑا دینے کے لئے ایک امنگ ہے۔
جو ناچ نہیں سکتا وہ لڑ بھی نہیں سکتا
آج بھی ملٹری بینڈ کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ طبل جنگ اور موسیقی والے طبلے میں کچھ فرق نہیں ہے۔ جذبہ پیدا ہوتا ہے تو آدمی ناچتا ہے اور جذبے سے ہی میدان جنگ میں اترتا ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
اب نجانے لیلیٰ خالد کہاں ہو گی؟ وہ مجھے بہت یاد آتی ہے۔ اس کی گمشدگی کی تو کوئی FIR درج نہیں کرائی گئی۔ بہت بڑے حریت پسند لیڈر یاسر عرفات کی بے حکمتیوں مصلحتوں اور عیاشیوں نے فلسطینی جدوجہد کو بہت نقصان پہنچایا جسے گولی سے مرنا چاہئے تھا وہ دشمنوں کے ملک میں زہر کی گولی سے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ لیلیٰ خالد زندہ ہے کہ نہیں۔ وہ کبھی بے موت نہیں مرے گی۔ اللہ اسے سوہنی موت دے گا۔ سوہنی زندگی کی تلاش کی ترنگ کچھ تو رنگ لائے گی۔
ملائشین طیارہ کا اغوا یا گمشدگی تو ایک سازش ہے۔ ایک عالمی منصوبہ بندی ہے مگر اس سے خاطر خواہ نتیجے حاصل نہیں کئے جا سکے۔ آج کل پاکستان اور پاکستان فوج کو بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کی گمشدگی کے مقدمے درج کرائے جا رہے ہیں۔ عدالتی کارروائیاں بھی ہو رہی ہیں۔ میڈیا کے بھی کچھ لوگ جو ایجنسیوں کے لئے کام کرتے رہے ہیں بہت سرگرم ہیں۔ فوجی لنکا ڈھانے کی کوشش میں ہیں مگر ان کے اپنے گھر کے بھیدی ابھی زندہ ہیں۔ اور انٹرنیشنل ایجنسیاں بھی نیشنل ایجنسیوں کی محتاج ہیں۔
مجھے انصار برنی یاد آتا ہے۔ وہ بحری جہازوں کے اغوا کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لئے ہماری ایک خاتون کالم نگار نے طیارہ اغوا برائے تاوان کے الفاظ لکھے ہیں جن کے معانی انصار برنی سے زیادہ کسی اور کو نہیں آتے۔ میں اس تاوان کو تعاون کا نام دیتا ہوں۔ ہمارے ہاں رشوت اور کرپشن کے لئے اب تعاون کا لفظ بری طرح رائج ہے۔ جہاں بڑی بڑی سفارش کام نہیں آتی وہاں چھوٹے سے ’’تعاون‘‘ سے کام چل جاتا ہے۔ اب تو سفارش کے باوجود تعاون ضروری سمجھا جاتا ہے۔
اس سے پہلے بحری جہاز اغوا ہوئے تھے۔ وہ انصار برنی کے تعاون سے رہا ہوئے۔ یعنی وہاں جو چند پاکستانی موجود تھے انہیں پاکستان لایا گیا۔ اس سے پہلے ان لوگوں کے لواحقین نے میڈیا پر ایک مہم چلائی۔جس میں بچیاں اور عورتیں رو رو کر فریاد کرتی تھیں۔ پاکستان میں مخیر حضرات کی کمی نہیں ہے۔ اربوں روپے اکٹھے ہوئے۔ وہ انصار برنی نے استعمال کئے۔ اس کا حساب لیا جائے۔ دوسرے بحری جہاز کے لئے ’’صدر‘‘ زرداری بھی شامل ہو گئے اور یہ سب دنیا جانتی ہے کہ وہ کاروباری فائدے کے بغیر کسی معاملے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ انہوں نے پاک بحریہ والے ملک ریاض کو پکارا۔ وہ ان سے کئی بار کئی موقعوں پر ایسے فائدے اٹھا چکے ہیں۔ اس مرتبہ سارا کام ملک ریاض نے کر دیا اور بحری جہاز کے مغوی پاکستان آ گئے۔
اب جو ملائشین طیارہ اغوا ہوا ہے۔ انصار برنی کی خواہش اور کوشش ہے کہ مسافروں میں کوئی پاکستانی تلاش کر لیا جائے تو پھر ملائشین طیارہ ڈھونڈ لیا جائے گا اور واپس بھی آ جائے گا۔ طیارہ پہلے ملائشیا نہیں جائے گا بلکہ پاکستان آئے گا۔
ایک دفعہ پھر انصار برنی سامنے آیا ہے۔ وہ آتا ہی اس وقت سامنے ہے جب ’’تاوان اور تعاون‘‘ کی بات ہوتی ہے۔ ہماری کرپٹ حکومتوں نے انہیں نگران وزیر شذیر بنا دیا۔ کوئی بتائے کہ اس نے کیا نگرانی کی ہو گی۔ ان لوگوں نے بھی حکمرانی اور من مانی کی۔ یہ کہاں کی کارکردگی تھی کہ اس نے ایک عدالتی سزا یافتہ بھارتی دہشت گرد کشمیر سنگھ کو رہا کرایا اور خود اس کا ڈرائیور بن کے واہگہ لے گیا۔ یہ تاریخی جملہ اس کا ڈس کریڈٹ بن گیا کہ ہم کشمیر آزاد نہیں کرا سکے مگر کشمیر سنگھ کو تو آزاد کرا لیا۔ کشمیر سنگھ نے بھارت جا کے پاکستان اور انصار برنی کے خلاف جو بیانات دیے اس پر بھی برنی صاحب شرمندہ نہ ہوئے۔ بھارت نے ان کا ویزہ بھی کینسل کر دیا۔ پھر بھی وہ شرمندہ نہ ہوئے۔
بیرونی قوتوں نے بہت کوشش کی کہ اس اغوا شدہ یا گمشدہ طیارے کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ یہ طیارہ پاکستان میں کہیں گرا دیا جاتا اور ملبہ دور دور تک بکھر جاتا۔ ان میں بیٹھے لوگوں میں پاکستانی کوئی نہ تھا۔ ان سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ پاکستانی طیارہ اغوا کرتے۔ اس حوالے سے انصار برنی کی خدمات آسانی سے مل سکتی تھیں؟
باہر والے اطمینان سے کہہ سکتے تھے کہ اس طیارے کے لئے پاکستان کو کوئی علم ہی نہیں تھا۔ جیسے اسامہ بن لادن کے لئے کاکول ملٹری اکیڈمی کے پڑوس میں دو امریکی ہیلی کاپٹر آئے۔ تسلی سے جھوٹ موٹ کی کارروائی کرتے رہے اور اسامہ کے جسد خاکی کو لے کے چلے گئے اور یہ کہا کہ ہمیں تو اسامہ کی رہائش کا علم تھا مگر پاکستانی حکومت اور ایجنسیوں کو علم نہ تھا۔ ملائشین طیارہ بھی آتا کچھ نہ کچھ کر کے چلا جاتا اور پھر کہا جاتا بے چارے پاکستان کو کوئی علم ہی نہ تھا۔ وزیرستان میں بھی طیارہ اترنے کی افواہ اڑائی گئی۔ یہ کارروائی شاید کوئی پریکٹس ہے۔ کچھ نہ کچھ کبھی نہ کبھی ہو جائے گا اور ہمیں علم بھی نہیں ہو گا؟ ہم جان بوجھ کر انجان بن جائیں گے۔
بنگلہ دیش بنانے کے منصوبے کے لئے بھارت نے خود اپنا طیارہ اغوا کر کے لاہور بھیجا تھا۔ ہم جذباتی قوم نعرے لگاتے رہے اور بھارت نے مشرقی پاکستان سے ہمارا ہوائی راستہ کاٹ دیا۔ پچھلے دنوں ایک طیارہ اسلام آباد آیا۔ اس کا کچھ اتہ پتہ نہ چلا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ مشرف کے ساتھ کاروباری معاملات طے کرنے آیا تھا۔ کسی دن کچھ اور بھی طے کرنے آ جائے گا اور اصل چیز ساتھ لے جائے گا؟