’’ بھٹو جو اک جذبہ ہے ‘‘ … (تنویر ظہور)
وہ کہ جس نے
تاریکی میں سورج بوئے
اس کا نام ہے بھٹو
جو سینوں میں رہتا ہے
شہروں، قصبوں اور
گائوں میں رہتا ہے
بوڑھوں اور جوانوں بچوں
اور مائوں میں رہتا ہے
اس لئے تو
اپنوں اور غیروں کے
لبوں پر
صبح و شام ہے بھٹو
جس نے کہا تھا
مفلسی اور مجبوری کب تک
اس دھرتی پہ راج کرے گی
غربت کے ماروں کا کب تک
مستقبل تاراج کرے گی
غربت کی فصلوں سے کب تک
کھیت ہمارے ڈھکے رہیں گے
جبر کے موسم
ہرے بھرے پتے
کب واپس لوٹائیں گے
غربت کے یہ کھیت
بھی ایک دن مسکائیں گے
کون تھا وہ
جو موت کی آنکھ سے آنکھ
ملا کر ہنستا تھا
جان ہتھیلی پر رکھ کر جو
خطروں میں گھس جاتا تھا
خوف تو اس کے قریب سے بھی
گھبراتا تھا
آج ضرورت ہے پھر
اک تحریک کی صورت
بھٹو کے آدرشوں
اور جذبے کو زندہ کرنے کی
کہ ہم اک زندہ قوم ہیں