• news

یہ فوج ہماری ہے

بالآخر آئین سے غداری کے جرم میں ’’پرویز مشرف‘‘ پر فردِ جرم عائد ہو گئی۔ عدالت میں ’’سابق چیف‘‘ کی حاضری نے تمام اندازے، قیاس آرائیاں غلط ثابت کر دیں کہ وہ عدالت نہیں آئینگے۔ دل کی تسکین کیلئے آپ چاہے جتنے بھی سرکس سجا لیں مگر یہ مت بُھولیں کہ پاکستان کو بے شمار چیلنجز، دشواریوں کا سامنا ہے۔ ان لمحات میں بڑے دل کیساتھ بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے۔ روایتی باتوں، تقاریر سے حالات گزارنے کا دور لد چکا ہے۔ کیا آپ بقیہ ’’4 سال‘‘ اِس تنازعے میں پھنس کر وقت ضائع کرنے کے آرزو مند ہیں؟
 ہم آئین پرست ہیں مگر اس بات کے ناقد ہیں کہ خلاف ورزی دستور کی ہو یا سماجی و مالیاتی امور کی۔ کبھی بھی ’’فردِ واحد‘‘ اکیلا جرم کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ بات اداروں کے تقدس، احترام کی ہے۔ اِس مرحلہ پر ’’فوجی زندگی‘‘ کے سارے تلخ و شیریں تجربات نظروں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ اکثریت اِس مغالطے کا شکار ہے کہ ’’فوجی ملازمت‘‘ محض عیش کی زندگی ہے مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک کمرے سے زندگی شروع کرنیوالا افسر شادی شدہ زندگی کے کئی برس ایک کمرے میں ہی گزار دیتا ہے۔ اب یقیناً بہت ساری سہولتیں، فراہم ہو گئی ہونگی مگر حالات میں بہت بڑی تبدیلی اب بھی نہیں‘ جس دور میں ہم ’’فوج‘‘ میں تھے۔ تب مسائل، مصائب بھی زیادہ تھے زیادہ پوسٹنگ تو ایسے شہروں میں رہیں جہاں گیس نہیں ہوتی تھی۔24 گھنٹے بجلی کا (وہ آج بھی ہے) تصور بھی ناممکن تھا۔ ’’سکردو‘‘ میں دو کمروں کے گھر میں دو سال گزار دئیے۔ پورے دن میں بجلی چند گھنٹوں کیلئے آتی تھی۔ انہی لمحات میں بجلی سے وابستہ ضروری امور نمٹانا نماز کی طرح فرض سمجھا جاتا تھا۔ اکثر پاور پلانٹ خراب رہتا تھا۔ جب دو، تین ماہ کے بعد بجلی آتی توکمرے میں ایک بٹن کی سُرخی کو دیکھتے ہوئے رات گزر جاتی۔ اِسی احساس میں کہ کہیں بجلی غائب نہ ہو جائے۔ اکثریت کے بچے سکول جانے کی عمر کو پہنچ گئے تھے مگر اُس علاقے میں سکول نہیں تھا۔ جن علاقوں میں سکول ہوتے تھے۔ وہاں بچوں کو سکول لیجانا بھی اضافی مشقت بن جاتا تھا‘ جو گھر الاٹ ہوتے تھے وہ آرام دہ زندگی کے تصور کے برعکس ایک بوجھ بن جاتے‘ جب گھر رہنے کے قابل ہو جاتا تو پوسٹنگ آ جاتی۔ تنخوائیں بھی بہت کم تھیں۔ اِن میں قابل ذکر اضافہ ’’نواز شریف‘‘ کے پہلے دور حکومت میں ہُوا تو تنخوا ہ بڑھنے کی خوشی سے زیادہ فکر یہ تھی کہ اتنے سارے پیسوں کو کہاں خرچ کریں۔ ’’فوجی زندگی‘‘ ایک سحر ضرور ہے مگر مشکلات سے جُڑا ہُوا۔ ظاہری تصویر سے کہیں زیادہ مشقت طلب زیست اور ویسے بھی ہر فوجی کے پہلے 20 برس ایک چھلنی کی طرح ہوتے ہیں۔ مہنیوں ایکسر سائز چلتیں تو چھائونیاں ویران ہو جاتیں جن کے ماں باپ حیات ہوتے، وہ بیویاں بچوں کو لیکر چلی جاتیں۔ جن کا پیچھے کوئی نہ ہوتا یا معاشی بوجھ سہارنے کا بوجھ کمزور ہوتا تو وہ بڑی اُداسی، تنہائی میں وقت گزرتا۔ اِس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ’’ادارے‘‘ کی قربانیوں، وفا کو ملحوظ رکھا جائے۔ فوجی اُن علاقوں میں بھی جاتے ہیں جہاں عام آدمی چند لمحے بھی نہیں گزار سکتا۔ سول میں سہولتیں زیادہ ہیں مگر کام چوری اس سے بھی دوگنا جبکہ ’’فوج‘‘ میں وفاداری اٹوٹ ہے مگر الزام تراشی، بے بنیاد کہانیاں ’’ادارے‘‘ کو کمزور بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہیں۔ ہم اپنے انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی کا شور مچاتے اور قابلیت پر سوال کھڑے کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر کسی جگہ دو دھماکے ہوئے ہیں تو بقیہ 3-4 ہمارے جوانوں نے بروقت کارروائی کر کے ناکام بھی بنائے ہیں۔ ہم کارکردگی کو سراہنے کی بجائے گنتی کے چند واقعات میں غفلت کا الزام دھرتے اِس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ کچھ اداروں کا کام محض معلومات پہنچانا اور کچھ کا کام روک تھام ہوتا ہے اگر آج تک باہمی ربط کی عدم موجودگی سانحات کو جنم دینے کا باعث بنی تو اِس میں قصور سول اداروں کا بھی ہے۔ خود بھارت میں ’’مقبوضہ کشمیر اور سانحہ کارگل‘‘ میں پے در پے انڈین فوج کی کمزوریاں، جعلسازی، جھوٹے بہادری کے قصے گھڑ کر حکومتی تمغہ جات، ایوارڈ لینے کی باتیں منظرِعام پر آ چکی ہیں مگر وہاں کے ’’میڈیا‘‘ سول سوسائٹی نے تو انفرادی مثالوں کو پورے ادارے کیلئے تازیانہ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بہتر ہے کہ قانون کو اپنا راستہ خود بنانے دیں۔ لفاظی جنگ میں اداروں کو رگیدنے کا عمل مستحسن نہیں۔ کون کہاں جا رہا ہے؟ کس کے ساتھ کیا ہونیوالا ہے اس سب میں عوام کو کوئی دلچسپی نہیں۔ عوام صرف اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ دلچسپی ہے تو صرف اُن منصوبوں میں جو بجلی کا بحران حل کرنے جا رہے ہیں۔ ’’چنیوٹ‘‘ میں دُنیا کی سب سے بڑی سٹیل ملز لگانے کا ’’وزیر اعلیٰ پنجاب‘‘ کا اعلان ایک اور اندھیرے کو کم کرنے کا باعث بنا ہے۔ اسلئے اب زمینی جھگڑے ختم کر کے زمین میں دفن کھربوں ڈالرز کے قدرتی وسائل کی تلاش پر توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن