پرویز مشرف کا معمہ یا روایتی المیہ…!
گیارہ مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے پرویزمشرف کئی اعلانات کے بعد بالاخر جب وطن عزیز واپس لوٹ رہے تھے تو اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے واضح طور پر پرویزمشرف کو پیغام بھجوا دیا تھا کہ وہ پاکستان واپس نہ لوٹیں، ان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے مگر پرویزمشرف کی گمنام سیاسی جماعت کے طوطاچشم احباب نے انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ایسا خواب دکھا رکھا تھا جس کی تلاش میں وہ پاکستان آئے کہ ناجانے کون سا تاج ان کے سر پر سجنے والا ہے۔ پرویزمشرف نواب اکبر بگٹی، بینظیر بھٹو قتل کیسز کے علاوہ کئی مقدمات میں مطلوب تھے اور واپس آتے ہی عدالتوں نے آئین اور قانون کے مطابق ان کا استقبال کیا جس پر اپنے اقتدار کے دوران مکے لہرانے والا فوجی آمر ڈھیر ہو گیا اور اب بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے۔ حکومت کی طرف سے ان کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کی درخواست کو مسترد کرنے کے بعد بظاہر یہ بات اظہرمن الشمس ہو چکی ہے کہ حکومت کا پرویزمشرف کو فرار کروانے کے سلسلے میں کوئی ڈیل یامعاہدہ موجود نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے وفاقی وزیر خواجہ سعدرفیق نے جرات مندانہ بات کی ہے کہ پرویزمشرف مرد کے بچے بنیں اور اپنے پر قائم مقدمات کا سامنا کریں البتہ خواجہ سعد رفیق کی طرف سے یہ کہنا کہ پرویزمشرف کے باہر جانے کا راستہ عدالت سے ہو کر گزرتا ہے اس پر کچھ باخبر حلقوں کو ابہام ضرور ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمارے آئین اور قانون کے مطابق صدرپاکستان کسی بھی کیس میں اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کر سکتا ہے گو صدرمملکت سید ممنون حسین واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے لیکن پھر بھی بعض سیاسی حلقوں کو سیدممنون حسین کی سیاسی پوزیشن پر کچھ ابہام ضرور دکھائی دیتے ہیں خیر جو بھی ہے پرویزمشرف وطن عزیز کا چوتھا فوجی آمر تھا جس نے 12اکتوبر 1999ء کو میاں محمد نوازشریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور فوجی کو کے ذریعے اقتدار پر براجمان ہو گئے۔ پرویزمشرف نے پاکستان وہ پاکستان جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر واحد اسلامی نظریاتی ملک بن کر ابھرا تھا اس کی بنیادی اساس کو ہر طرح سے تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ یہاں تک کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد لڑنے والے وطن عزیز کے بغیر تنخواہ یافتہ مجاہدین کو حکومت کے خلاف برسرپیکار کر دیا۔ وطن عزیز کو امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر ملک میں دشت و خون کا ہولناک بازار سرگرم کر دیا۔ خواجہ سعد رفیق نے بڑی اہم بات کی ہے کہ اگر پرویزمشرف کو چھوڑ دیا تو سندھیوں اور بلوچیوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ پرویزمشرف نے بلوچستان میں جو شورش برپا کی تھی اس کی آگ آج تک آتش فشاں کی طرح ابل رہی ہے۔ سندھ کی محرومیاں دور نہیں ہو پا رہیں اور وطن عزیز پرویزمشرف کی ہی ناقد پالیسیوں کے باعث یہودی صیہونی لابی کے عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ پرویزمشرف کو خواجہ سعد رفیق اور بہت سارے سیاسی حلقے غدار کہہ رہے ہیں جس پر ملٹری بیوروکریسی میں سخت تشویش پائی جاتی ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی صفوں میں پائی جانے والی تشویش کو کب اور کیسے دور کیا جائے گا؟۔ وطن عزیز کی تاریخ میں آج تک ہر بااثر آئین اور قانون کو اپنے گھر کی ادنیٰ سی لونڈی سے زیادہ کا درجہ نہیں دیتا اور پھر اپنی تمام تر آئین اور قانون شکنیوں کے باوجود اسے اپنے گھر کی لونڈی ثابت کر کے رہتا ہے۔ ہم گذشتہ کئی دہائیوں سے جمہوریت، جمہوریت اور جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس جمہوریت کے راگ کے الاپ میں ہمارے سیاستدانوں نے عوام کی محرومیوں کی صدائے بازگشت کو دبا رکھا ہے لیکن جمہوریت آئین کی ایک اہم ترین اور مضبوط تر شاخ ہے جس کا سب سے بنیادی تقاضا ہے کہ آئین کو روندنے والے فوجی ڈکٹیٹر، غاصب اور مسلسل امریکی مجاہد بنے رہنے والے پرویزمشرف کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جس کا تقاضا آئین اور قانون کرتا ہے۔ پرویزمشرف فوجی آمر تھا جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اس نے ایمرجنسی ڈکلیئر کی اور اس پر اپنے بیانات کو توڑمروڑ کر، تبدیل کر کے آخرکار تسلیم کر چکا ہے کہ اس نے ایمرجنسی ڈکلیئر کی تھی۔ پرویزمشرف اگر آئین اور قانون کی گرفت میں لا کر آئین اور قانون کی بالادستی قائم نہیں کی جاتی تو پھر ہم اپنے ملک میں رول آف لاء کیسے قائم کر سکتے ہیں۔ یہ کیسا دوہرا انصاف اور معیار ہو گا کہ جو شخص آئین توڑے اسے پرائیویٹ طیاروں میں باہر بھیج دیا جائے اور جو شخص معمولی سا جرم کرے اور بااثر نہ ہو اس پر قانون کی گرفت کو قانون سے بھی زیادہ سخت تر کر دیا جائے۔ ایسے تماشوں اور بیہودہ حرکات کے لئے پاکستان کا قیام بالکل نہیں ہوا تھا۔ ہمارے بزرگوں، ماؤں، بہنوں، جوانوں اور بیٹیوں نے لازوال اور انسان کی روح کو کانپا دینے والی قربانیاں اس لئے دی تھیں کہ یہ ملک اسلام کی تجربہ گاہ بن سکے جہاں سب کو عدل و انصاف میسر آئے، جہاں سب کے لئے قانون ایک جیسا ہو۔ پرویزمشرف مسلسل آئین اور قانون کو روندتا رہا۔ صوبوں میں محرومیاں اپنی استحصالی حرکات سے بڑھاتا رہا۔ مذہب کو کرش کیا جاتا رہا۔ لادینیت کو فروغ دیا جاتا رہا۔ حدود آرڈیننس جیسے بیہودہ قوانین لائے گئے۔ ایسی ایسی حرکات کی گئیں کہ پاکستان کے باسی اپنے حکمرانوں پر شرمندہ ہونے لگے۔ پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام ترین ملک پرویزمشرف نے بنایا۔ دہشت گردی کی ایک ایسی آگ بھڑکا دی کہ پورے ملک کی خوشحالی اور عوام کی زندگیاں تہس نہس ہو کر رہ گئی۔ اس پرویزمشرف سے آج رحم اور نرم گوشے کے لئے کیسے باتیں کی جا سکتی ہیں۔ آئین اور قانون کا تقاضا ہے کہ پرویزمشرف کو آئین اور قانون کے سائے میں عبرت کا نشان بنا دیا جائے وگرنہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے آئندہ بھی جمہوریت کی بساط لپٹنے کے انتظار میں رہیں۔