فلپ سے سراج تک
اُس کے تاج میں یورپ کے کئی ممالک کی حکمرانی کے ہیرے جگمگاتے تھے۔ وہ بیک وقت ہابسبورغ، برگنڈی،قشتالہ ، لیون اور اراغون جیسے کئی یورپی خاندانوں کا وارث بھی تھا۔وہ 1519ء میںمقدس رومہ کا شہنشاہ اور آسٹریا کاسرپرست اعلیٰ بنا۔ سولہویں صدی میں وسطی، مغربی اور جنوبی یورپ میں اُسی کا سکہ چلتا تھا اور اس کی مرضی کے بغیر چڑیا پر بھی نہ مارسکتی تھی۔ اُس کی سلطنت مشرق بعید سے لے کریورپ اور یورپ سے لے کر امریکہ تک چالیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ چونتیس سال تک پورے جاہ و جلال کے ساتھ حکمرانی کرنے والے ہسپانیہ کے اس پہلے بادشاہ نے 1554ء میں ایک بڑا عجیب فیصلہ کیا، دراصل اُس نے تخت اور اقتدار سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیاتھا۔پہلے اُس نے ہسپانیہ کی بادشاہی، صقلیہ اور نابولی (سسلی اور نیپلز) کے تخت اور میلان کا قلمرو اپنے بیٹے فلپ ثانی کے حوالے کیا اور پھر کچھ عرصہ بعد رومہ کی شہنشاہی اپنے بھائی فرڈیننڈ کو سونپ کر اقتدار سے مکمل طور پر الگ ہوگیا۔ تین دہائی سے زیادہ عرصہ تک پورے طمطراق کے ساتھ حکمرانی کرکے اٹھاون برس کی عمر میں دنیا چھوڑ جانے والا یہ یورپی حکمران جدید سپین کا پہلا بادشاہ چارلس پنجم تھا۔چارلس کی تخت سے دستبرداری کے حوالے سے اگرچہ تاریخ میں کئی کہانیاں مشہور ہیں، لیکن اِ ن میں سب سے مستندیہی ہے کہ اقتدار کے آخری سالوں میں چارلس کو مختلف داخلی اور خارجی محاذوں پر پے در پے کئی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مقبوضہ شہر اور ریاستیں مٹھی میں بند ریت کی طرح ایک ایک کرکے اُسکے ہاتھ سے نکلنے لگیں، ہالینڈ میں بغاوت پھوٹ پڑی، اسپین کا دیوالیہ نکل گیا اور جرمنی مذہب کے معاملے پر بری طرح منقسم ہوکر رہ گیا تھا۔ انیس سال کی عمر میں اسپین کا بادشاہ بننے والے چارلس کو علم تھا کہ حکومت برقرار رکھنے کیلئے ضروری جنگی مہمیںسر کرنا جوانوں کا ہی کام ہوتا ہے۔ کمزور اعصاب اور مضمحل قویٰ کے ساتھ مختلف النوع اقوام کو باہم آپس میں جوڑ کر نہیں رکھا جاسکتا، یوں ساٹھ برس کی عمر کو پہنچنے سے کچھ عرصہ پہلے ہی چارلس نے ’’ریٹائرمنٹ‘‘ لے لی اور سلطنت کی بہتری کیلئے تخت نئے خون کے حوالے کردیا۔
یہ کہانی تو ہسپانوی بادشاہ کی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سولہویں صدی میں ایک کہانی اور بھی چلتی ہے اور وہ کہانی عثمانی سلطان سلیمان عالیشان کے اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کی کہانی ہے۔ دونوں سلیمان اور چارلس ہم عصر تو تھے ہی، لیکن تقریبا تقریبا ہم عمر بھی تھے۔ دونوں بہادر بھی تھے اور اپنے اپنے علاقوں کی سپر پاور بھی تسلیم کیے جاتے تھے۔مثال کے طور پر چارلس 1519ء میں ہسپانیہ میں تخت نشیں ہوا تو سلیمان 1520ء میں سلطنت عثمانیہ کا سلطان بنا۔چارلس کی والدہ قشتالہ کی ملکہ ’’جوانہ جنونی‘‘ نے جدید ہسپانیہ (سپین) کی متحد کیا تو سلیمان کے والد سلیم اول نے خلافت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ مگر دونوں چارلس اور سلیمان کی بصیرت اور دوروندیشی میں واضح فرق اُس وقت نظر آیا جب تاج و تخت اگلی نسل کو سونپنے کی باری آئی۔ مثال کے طور پر 1554ء میںچون سالہ چارلس اپنے سب سے لائق ستائیس سالہ بیٹے فلپ ثانی کے حق میں ہسپانیہ کے تخت سے دستبردار ہوگیا، اس کے برعکس انسٹھ سالہ سلطان سلیمان نے 1553ء میں تخت چھننے کے خوف سے اپنے سب سے لائق اڑتیس سالہ بیٹے شہزادہ مصطفی کو تخت سونپنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھادیا۔اُدھر چارلس پنجم1558ء میں رومہ کی شہنشاہی سے بھی دستبردار ہوگیا اور شہنشاہی کا یہ ٹائٹل اپنے بھائی فرڈیننڈ کو سونپ دیا، لیکن اس کے برعکس 1559ء میں سلطان سلیمان نے تخت کی جنگ میں اپنے دوسرے قابل بیٹے بایزید کے خلاف مستقل کے سلطان سلیم کا ساتھ دیا، اس جنگ میں بایزید کو شکست ہوئی اور اُس نے ایران کے شاہ طہماسپ کے ہاں پناہ لے لی، جہاں سلطان سلیم نے پیسے اور دھمکی دے کر طہماسپ کے ہاتھوں اپنے بیٹے بایزید کو بھی قتل کروادیا۔مصطفی اور بایزید کے قتل کے بعد سب سے نکما شہزادہ سلیم اپنے والد سلیمان کی موت پر تخت نشیں ہوا،جس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی جنگی مہم میں ذاتی طور پر شرکت نہ کی اور تمام معاملات اپنے وزیراعظم پر چھوڑ دیے، یوں سلطنت عثمانیہ زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی اور اِس عظیم اسلامی طاقت کو پھر دوبارہ عروج دیکھنا نصیب نہ ہوسکا۔ اس کے برعکس بادشاہ چارلس رضاکارانہ طور پر تخت سے الگ ہوا اور فلپ کی صورت میںنیا خون ملا تو اسپین ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ فلپ نے ملکہ میری اول سے شادی کی جس کے بعد فلپ انگلینڈ اور آئرلینڈ کا بھی بادشاہ بن گیا۔1581ء میں’’معرکہ الکانترا‘‘میں فتح کے بعد فلپ ثانی نے پُرتگال کی بادشاہت کا تاج بھی پہن لیا۔فلپ نے جنوبی ایشیا کی مہموں میں کئی جزائر اور شہروں کو اپنی سلطنت میں شامل کیا، بعد ازاں ان جزائر کا نام فلپ کے نام پر رکھا گیا۔ فلپائن کا نام بھی اسی ہسپانوی بادشاہ فلپ کے نام پر ہے۔
یہ کہانیاں تو گزرے کل کی ہیں لیکن عالم اسلام کا آج بھی یہی مسئلہ ہے کہ جوان اور نئی نسل پر اعتماد نہیں کیا جارہا۔ مختلف اسلامی ممالک میں حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی عمریں دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اُن کی ٹانگیں قبر میں لٹک رہی ہیں لیکن دل میں ہر وقت یہی حسرت ہے کہ پاؤں تخت پر جمے رہیں۔ بھلا ستر سے نوے سال کی عمر میں کہاں اور کیسے پاؤں ٹک سکتے ہیں؟جب پاؤں ٹکتے نہیں تو پھر ڈولتے اقتدار کو بچانے کیلئے یہ ہونقوں جیسے کام کرجاتے ہیں، جس کا خمیازہ آنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔اس کے برعکس مغربی ممالک کو دیکھیں تو اکثر ممالک کے حکمران چالیس کے پیٹے میں اقتدار میں آئے اور اب اقتدار کی دو دو مدتیں مکمل کرنے کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ پچاس کے پیٹے میں ہیں۔
قارئین محترم!یہ حقیقت بھی ہے اور اس حقیقت کو سبھی جانتے بھی ہیں کہ ڈھلتی جوانی میں جذبوں اور قوت عمل کو جوانوں کی طرح مضبوط اور متحرک رکھنا ممکن نہیں ہوتااور اقتدار کی غلام گردشوں میں گھات لگاکر بیٹھے قاتلوں پر انہی کی بازی پلٹ دینا کسی بوڑھے کا نہیں بلکہ کسی جوان کا کام ہی کام ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی نے دیر سے ہی سہی لیکن یہ راز پالیا ہے اور اس کا اظہار سراج الحق کی صورت میں نئی قیادت منتخب کرکے کیا ہے۔جماعت اسلامی کی قیادت میں نیا خون شامل ہوا ہے توکہا جاسکتا ہے کہ وہ کچھ کربھی دکھائیں گے، لیکن سوال تو یہ ہے پاکستان اور عالم اسلام کے حکمران اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھ یہ چھپا گوہر کب لگے گا؟کب وہ نوجوان نسل کی آواز سنیں گے؟کب وہ سلیمان اور چارلس کی بصیرت اور سوچ میں فرق کو سمجھ سکیں گے؟اگر سلیمان سے چارلس تک یہ سوال ہمارے سامنے ہے تو فلپ سے سراج تک جواب بھی ہمارے سامنے ہے۔