• news

ایٹم بم اور توپ کا زمانہ لد گیا، سراج الحق کا آ گیا


میںنے اس کالم کی ہنڈیا چولھے پر چڑھا رکھی تھی،خیال یہ تھا کہ سراج الحق کے حلف کی تاریخ تک پک جائے گی مگر نوائے وقت کے آخری صفحہ پر شائع ہونے والے اس بیان نے آنچ تیز کر دی کہ ایٹم بم اور توپ کا زمانہ لد گیا، اپنی طرف سے صحیح کہا ہوگا سراج الحق صاحب نے ،کیونکہ امریکہ بھی یہی کہتا ہے کہ ایٹم بم اور توپ کا زمانہ لد گیا، جو کرنا ہے مذاکرات سے کرو، طالبان سے مذاکرات،کرزئی سے مذاکرات، بھارت سے مذاکرات اور شاید کچھ دنوں میں ایران کے ساتھ مذاکرات۔ مگرامریکہ خودمذاکرات کے بجائے ڈرون طیارے، بی باون اور کروز میزائل کا استعمال کرتا ہے۔عراق میںکرتاہے،یمن میںکرتا ہے،افغانستان میںکرتا ہے،پاکستان میں کرتا ہے اورہمیں مذاکرات کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے، ہمارے وزیر داخلہ رونا روتے ہیں کہ جب مذاکرات کامیاب ہونے لگتے ہیںتو امریکہ ڈرون ماردیتا ہے۔
سراج الحق جماعت اسلامی کے نئے امیر بن گئے، کہا گیا کہ یہ نرم انقلاب ہے۔ان سے پہلے کے امیر ،منور حسن اپنے اس فتوے کی وجہ سے مشہور ہوئے کہ پاکستان کا کوئی فوجی اگر امریکہ کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا گیا تو اسے شہید نہیں کہا جا سکتا۔فوج نے جماعت اسلامی سے مطالبہ کیا کہ منور حسن کا بیان واپس لیا جائے لیکن جماعت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ، الٹا وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ فوج کے خلاف کاروائی کریں، وزیر اعظم رحمدل نکلے، خاموش ہو رہے۔
منور حسن کا یہ بیان مشرف دور میں آتا تو اس پر اسی طرح پابندی عائد کر دی جاتی جیسے سعودی عرب اور مصر نے اخوان المسلمون پر عائد کر دی ہے، ان دونوں ملکوںنے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس تنظیم کو دہشت گرد بھی قرار دے دیا، مصر نے تو اخوان راہنمائوں اور کارکنوں پر اجتماعی مقدمے چلائے ہیں اور تھوک کے حساب سے پھانسی کی سزائیں سنا ڈالی ہیں ، ان سب کا رول ماڈل بنگلہ دیش کی حسینہ واجد ہیں۔
جماعت کی سوچ میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہی ہے، اتفاق کی بات ہے کہ یہی تبدیلی امریکی سوچ میں بھی رونما ہوتی رہی۔ایک زمانہ تھا جب مولا نا مودودی کی قیادت میںجماعت ا سلامی سوشلزم اور کمیونزم کے خلاف قلمی جہاد کر رہی تھی۔یہی وہ زمانہ ہے جب امریکہ بھی سوشلزم اور کمیونزم کے خلاف پرایپگنڈے کی جنگ بھڑکا چکا تھا۔اگلا مرحلہ جہاد بالسیف کا تھا ، اس کا موقع خود روس نے فراہم کیا ، اس کی فوجیں گرم پانیوں کی تلاش میں ملک سے نکلیں ، ان کاپہلا پڑائو افغانستان تھا۔امریکہ نے اس کے خلاف جہاد کا بگل بجا دیا۔ جماعت اسلامی کی امارت کے منصب پر قاضی حسین احمد سرفراز ہو چکے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی مجاہدین نے افغانستان کو روسی افواج کے مر گھٹ میں تبدیل کر دیا۔
افواج پاکستان اور جماعت اسلامی کی قربت جنرل یحییٰ خاں کے دور میں شروع ہوئی، اس نے ایک آئین بنایا جسے اس وقت کے امیر میاں طفیل محمد نے عین اسلامی قرار دیا، یہ وہ زمانہ ہے جب مشرقی پاکستان میں پاک فوج مکتی باہنی سے نبرد آزما تھی، شیخ مجیب الرحمن کی انتخابی کامیابی کالعدم ہو چکی تھی اور نئے مگر یک طرفہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے امید وار سو فیصد کامیابی حاصل کر کے ڈھاکہ کی کابینہ میں شامل ہو چکے تھے۔ حالات زیادہ بگڑے توجماعت اسلامی نے البدر اور الشمس تشکیل دے کر فوج کے شانہ بشانہ جنگ لڑی۔ مگر سوئے اتفاق سے اس میں پاک فوج اور جماعت اسلامی کو شکست ہو گئی۔آج کا بنگلہ دیش جماعت کی اس حرکت کو غداری سے تعبیر کرتا ہے۔
 جنرل ضیاالحق کے زمانے میں جماعت اور فوج کی قربت دیدنی تھی، جماعت کے چار لیڈروں کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا،جنرل ضیا نے شہادت سے پہلے اپنی عمر اور سیاسی میراث نواز شریف کو عطیہ کر دی ، جماعت بھی جہیز میں ساتھ گئی ۔اور یہ ساتھ اسلامی جمہوری اتحاد کی شکل میں سامنے آیا۔جنرل مشرف کے ساتھ جماعت کی براہ راست قربت تو نظر نہ آئی لیکن   جماعت نے ایم ایم اے میں شامل ہو کرمشرف کے سائے میں حکومت کے مزے لئے۔اس وقت امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا، پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نبھانے کا فیصلہ کر لیا تھاا مگر دس برس بعد منور حسن ، پاک فوج کے خلا ف ڈٹ گئے ،اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں مگر بظاہر تحریک طالبان کے لیڈر حکیم اللہ محسود ڈرون کا نشانہ بنے تو قیامت کھڑی کر دی گئی، کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ حکیم اللہ اور جماعت  کے درمیان قدر مشترک کیا ہے مگر پشاور میں میجر مست گل نے دھماکوں کی ذمے داری قبول کی تو جماعت کے غیظ و غضب کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی۔
علاقے میں کئی ایک تبدیلیوں نے جماعت کے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔پاکستان میں سعودی عرب بھی سرگرم عمل ہے اور ایران بھی متحرک دکھائی دیتا ہے جبکہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ یہ ایک بھونچال کی کیفیت ہے جس نے کئیوں کے سر چکرا کے رکھ دیئے ہیں۔ جماعت اسلامی کسی کے کیاقابو آئے گی جبکہ ن لیگ کی انا دیدنی ہے،اس کے ہتھے مشرف چڑھ گیا ہے، مگرجماعت اپنا غصہ کس پر نکالے۔ اس نے زیادہ دلیری دکھانے کے لئے پوری فوج کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن