• news

تھر میں مزید3 بچے جاں بحق ‘ قحط اور غفلت کے ذمہ دار 4 صوبائی ادارے ہیں: تحقیقاتی رپورٹ تیار

تھرپارکر+کراچی (ثناء نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) صحرائے تھر میں خوراک کی کمی کے باعث مزید ً3بچے گزشتہ روز انتقال کرگئے  بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روزگائوں ٹالہی میمن میں 6سالہ ساجد ولد حسن ‘ چھاچھرو کے گاوں قبول نہڑیو میں 3 ماہ کا گل محمد اور مہاراج کالونی میں 3 ماہ کی دیپا انتقال کرگئی۔ ادھر سول ہسپتال مٹھی میں 95 بچوں سمیت 107 مریض زیر علاج ہیں۔ دور دراز علاقوں میں حکومتی امداد سے محروم افراد سندھ کے دیگر اضلاع میں اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی کررہے ہیں اور25 ہزار 70 خاندان ابھی تک امدادی رقم سے محروم ہیں۔ دوسری جانب نوائے وقت رپورٹ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر تھر میں قحط کی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی گئی۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ چار سرکاری محکموں کی غفلت سے صورتحال خراب ہوئی۔ سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر ڈی آئی جی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں قائم فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی تیار کردہ رپورٹ میں فنانس، ریلیف، صحت اور خوراک کے محکموں کو تھر میں اموات اور غفلت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تھر کے تین میں سے دو مختیار کاروں نے ستمبر میں ہی اپنی رپورٹ میں بتا دیا تھا کہ علاقے میں قحط پڑنے والا ہے لیکن ڈپٹی کمشنر تھر پارکر نے کمشنر میرپورخاص کو تھر کی صورتحال کے بارے میں دیر سے مطلع کیا۔ دوسری جانب حکومت سندھ نے بھی ضلع کو آفت زدہ قرار دینے میں دو ماہ سے زائد عرصے کی تاخیر کی۔ دسمبر 2013 کو سمری بھیجی گئی لیکن تھر پارکر کو 28 فروری 2014 کو آفت زدہ قرار دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں تین ماہ تک سمر ی پڑی رہی اور کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق سال 2012ء اور 2013ء کے دوران 141 بچے جاں بحق ہوئے جبکہ سال2013ء اور 2014ء کے دوران 196 بچے جان سے گئے۔ علاقے میں ماہرڈاکٹروں کی 34 اسامیوں میں سے 27 اسامیاں خالی ہیں جبکہ جنرل ڈاکٹروں کی 251 اسامیوں میں سے 163 اسامیاں خالی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے بچوں کی اموات کی بڑھتی ہوئی شرح پر بھی توجہ نہیں دی۔ وزیر اعلیٰ نے 13 دسمبر کو احکامات دیئے کہ ٹرانسپورٹ کی مد میں فنڈ جاری کئے جائیں اور خوراک تقسیم کی جائے، 28 جنوری 2014 کو پانچ کروڑ 32 لاکھ روپے خوراک کی ترسیل کی مد میں جاری کئے گئے لیکن یہ فنڈز بروقت استعمال نہ کیے گئے۔

ای پیپر-دی نیشن