• news

بابری مسجد کو جنونی ہندوئوں نے منظم سازش کے تحت شہید کیا‘ نر سیم رائو‘ ایڈوانی کو پہلے سے علم تھا: بھارتی ویب سائٹ کا انکشاف

نئی دہلی (اے پی پی+ نیٹ نیوز) انتہاپسند ہندو تنظیموں کے اتحاد سنگھ پریوار نے بابری مسجد کو شہید کرنے کیلئے کئی ماہ تک انتہائی منظم انداز میں منصوبہ بندی کی تھی اور اپنے کارکنوں کو ریٹائرڈ فوجی افسروں سے تربیت دلوائی تھی۔ مزید برآں بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی، سابق بھارتی وزیراعظم وی پی نرسیما رائو، اس وقت کے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ اور رام جنم بھومی تحریک کے دیگر اہم رہنما اس منصوبہ سے آگاہ تھے۔ یہ انکشاف بھارتی نیوز ویب سائٹ اور ٹی وی پروڈکشن ہائوس کو برا پوسٹ نے تازہ ترین ’’سٹنگ آپریشن‘‘ کے دوران تیار کی گئی  رپورٹ میں کیا ہے۔ رپورٹ جسے اکثر بھارتی اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا،  کی تیاری کیلئے کوبرا  پوسٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کے اشیش نے ایودھیا تحریک پر تحقیقی کتاب کے مصنف کے روپ میں ایودھیا، فیض آباد، ٹانڈا، لکھنئو، گورکھپور، متھرا ، مراد آباد، جے پور، اورنگ آباد، ممبئی اور گوالیار کا سفر کیا اور رام جنم بھولی تحریک کے 23اہم رہنمائوں کے انٹرویو ریکارڈکئے۔ ان رہنمائوں میں شکتی مہاراج، اچاریہ دھرمیندر، اوما بھارتی، مہانت ویدانش اور ونے کٹیار شامل ہیں۔ کے اشیش کے مطابق ان سب رہنمائوں کے انٹرویو کو ایک جگہ جمع کرنے سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق یہ دعویٰ سراسر بے بنیاد ہے کہ بابری مسجد کی شہادت مشتعل کارسیوکوں کی کارروائی تھی۔ بابری مسجد کی شہادت کے منصوبہ کی کئی ماہ تک تیاری کی گئی تھی۔ اس منصوبہ کا خفیہ نام ’’آپریشن جنم بھومی‘‘ رکھا گیا تھا اور اس پر فوجی  مہارت کے ساتھ عمل درآمد کیا گیا۔ کارسیوکوں کو باقاعدہ تربیت فراہم کی گئی اور مسجد کی شہادت کیلئے درکار ساز و سامان کو اہتمام کے ساتھ مطلوبہ جگہ تک پہنچایا گیا۔ منصوبہ تشکیل دینے والوں نے اس موقع پر کچھ ہندو کارسیوکوں کو پولیس کے ہاتھوں مروانے کی منصوبہ بندی بھی کی تھی کیونکہ ان کے خیال میں ہندو کارسیوکوں کے قتل کے بغیر اس منصوبہ پر عملدرآمد ممکن نہیں تھا۔ منصوبہ سازوں نے پلان بی اور سی بھی تشکیل دیا تھا جس کے مطابق پلان اے ناکام  ہونے کی صورت میں مسجد کو ڈائنامائٹ سے اڑا دیا جانا تھا اور یہ منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں مسجد کو پٹرو ل بموں سے آگ لگا دی جانا تھی۔ کے اشیش کے مطابق اگرچہ رام جنم بھومی تحریک کے جن رہنمائوں سے انہوں نے انٹرویو لیے ان میں سے کئی  نے نہ صرف اس مذموم منصوبہ میں شمولیت کا اعتراف کیا بلکہ اپنے کردار کو  فخر سے بیان کیا۔ ان تمام رہنمائوں کے انٹرویو سے حاصل ہونے والی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔ جن لوگوں کو تربیت کیلئے منتخب کیا گیا ان کو بھی اس سانحہ سے ایک ماہ قبل تک اس بات سے لاعلم رکھا گیا۔ انتہاپسند ہندو تنظیم بحرنگ دل نے گجرات کے علاقے سرکھیج میں جون 1992ء میں اپنے 38 کارکنوں کو ایک ماہ تک تربیت فراہم کی اور وشوا ہندو پریشد کے سینئر ترین قائدین نے ان افراد کو بابری مسجد کی شہادت کیلئے مذہبی طور پر اکسایا، ذہنی تربیت اور لکشمن سینا نامی تنظیم  تشکیل دینے کی ہدایت کی۔ ان کارکنوں کو تربیت دینے والے بھارتی فوج کے ریٹائرڈ سینئر افسر تھے ان لوگوں کی اچاریہ گری راج کشور، اچاریہ دھرمیندر، پراوین توگاڑیا جے بھن پاویا اور اشوک سنگھل جیسے انتہاپسند رہنمائوں سے تعارفی نشستیں  کرائی گئیں۔ جے بھگوان گوئل نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس ڈائنا مائٹ کا بھی انتظام تھا اور ضرورت پڑنے پر وہ اسے استعمال کر سکتے تھے۔ بجرنگ دل کے ایک سکواڈ نے  تیشے، ہتھوڑے، بیلچے، رسے اور دیگر مطلوبہ اشیاء مقررہ جگہ تک پہنچائیں۔ شکشی مہاراج نے اعتراف کیا کہ اشوک سنگھل نے ان کے سامنے کہا تھا کہ جب تک کارکن مارے نہیں جائیں گے مہم زور نہیں پکڑے گی۔ 6دسمبر کو کچھ کارسیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کرنے کا حلف اٹھایا تھا یہ حلف رام ولاس ویدانتی نے  لیا تھا۔ ونے کٹیار، بی ایل شرما ، سنتوش ڈوبی اور بعض دوسرے رہنمائوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اس منصوبہ میں انہیں اس وقت کے وزیر اعظم نرسیما رائو کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔ اس وقت کے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کو اس منصوبہ کی اطلاع ایک روز قبل دی گئی اور انہیں ضروری اقدامات کرنے کو کہا گیا تاہم 6دسمبر کی صبح بابری مسجد پر حملے کی اطلاع پر انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا لیکن مرلی  منوہر جوشی  اور ایچ وی ششادھری جیسے سینئر رہنمائوں کے کہنے پر انہوں نے یہ اعلان واپس لے لیا۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بی جے پی  کے رہنمائوں نے کلیان سنگھ کو بابری مسجد کی شہادت کی کارروائی مکمل ہونے تک لکھنئو میں یرغمال بنا کر رکھا تھا۔

ای پیپر-دی نیشن