ڈالر ڈرامہ
کوئی دن نہیں گزرتا جب اسحاق ڈار اعداد و شمار کو فخر سے بیان نہ کر رہے ہوں۔ زر مبادلہ کے ذخائر ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایوب دور کے وزیر خزانہ محمد شعیب کبھی کبھار ہی بولتے تھے، ان کی باتوں میں خوب وزن ہوتا تھا جس کی بنا پر انہیں ورلڈ بنک میں اعلیٰ منصب عطا ہوا تھا۔ قابل تحسین بات تب ہوتی جب وزیر خزانہ یہ اعلان کرتے کہ ڈالر 98 روپے کا ہونے سے آٹے کا تھیلا سستا ہو گیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں 10 سے 12 روپے کمی ہوئی جبکہ پٹرول صرف 1.72 روپے لیٹر سستا ہُوا۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹیں ہوں یا سالانہ اکنامک سروے سرکاری معیشت دانوں کے مرتب کردہ ہوتے ہیں ان کے پیش نظر حکمرانوں اور آئی ایم ایف کی خوشنودی ہوتی ہے۔ سٹیٹ بنک کہتا ہے کہ اخراجات میں کمی اور ریونیو بڑھنے سے مالیاتی خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تک رہ گیا ہے۔ سٹیٹ بنک یہ بتانے سے قاصر ہے کہ عام آدمی کے بجٹ کا خسارہ کتنا کم ہوا ہے۔ حکومت تو ادھار لیکر کام عام چلا لیتی ہے عام آدمی اپنا خسارہ کس سے ادھار لیکر اور کب تک پورا کرتا رہے گا۔ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو بہت سے لوگوں نے پیشگوئی کی کہ وہ اب بھی ٹیکس چوروں کو تحفظ فراہم کریں گے۔ یہ پیشگوئی حرف بہ حرف اس وقت پوری ہوئی جب ستمبر 2013ء میں اسحاق ڈار نے فخر سے اعلان کیا کہ تاجروں کے سارے مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان ہوا اور ایف بی آر کی اتھارٹی کمزور پڑنا شروع ہوئی۔ سارے تاجر ماضی کی طرح آج بھی ٹیکس کے گوشوارے جمع کراتے ہیں نہ ہی ریٹیل سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ 21 مارچ 2014ء کو کراچی میں ایف بی آر کے ایک ترجمان نے تسلیم کیا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو پذیرائی نہیں ملی صرف تین ہزار لوگوں نے اس سکیم کے جواب میں محض 8 کروڑ 80 لاکھ روپے جمع کرائے۔ ایمنسٹی سکیم کی مدت میں 30 اپریل تک توسیع کی گئی ہے لیکن ٹیکس نہ دینے کا تہیہ کرنے والوں کرنے والوں کے ارادے آج بھی غیر متزلزل ہیں دولت کے بل پر الیکشن لڑنے اور جیتنے والے ٹیکس کلچر پیدا نہیں کر سکتے۔ بیرون ملک اربوں روپوں کے اثاثوں کے مالکان پر کوئی شے اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ سچ، ایماندار اور جب الوطنی پیدا نہیں کی جاتی۔ الیکشن لڑنے والوں کو بڑے کاروباری لوگ فراخدلانہ عطیات دیتے ہیں اس لئے بدلے میں وہ اپنے لئے ٹیکس ایمنسٹی سکیموں اور ایس آر اوز کا اجرا کرواتے ہیں۔ اربوں روپوں کے گھروں میں رہنے والوں نے پاکستان میں بھی اپنے لئے دوبئی جیسا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔
2012-13ء میں ایف بی آر بجٹ میں آمدنی کے اہداف کو تین بار نیچے لانے کے باوجود بھی پورے کرنے میں ناکام رہا۔ 444 ارب کے شارٹ فال نے حکومت کو ادھار کی ڈور بیل بجانے پر مجبور کر دیا۔ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 4.7 فیصد سے بڑھ کر 8 فیصد ہو گیا۔ 2381 ارب کی بجائے 1936 ارب جمع ہو سکے۔ 2011-12ء میں آمدنی کا شارٹ فال 75 ارب روپے تھا۔ 2010-11ء میں یہ رقم 38 ارب تھی۔ 19 کروڑ کی آبادی میں 9 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع کرائے گئے۔ بات گوشواروں سے زیادہ لوگوں کی آمدنی اور ان کے ذمے صحیح صحیح ٹیکس کی ہے۔ ٹیکس جی ڈی پی ریشو 8.2 فیصد سے آگے نہیں جا رہی۔ ورلڈ بنک کی رپورٹ میں 189 ممالک کا ذکر ہے۔ ٹیکسوں کی ادائیگی کے معاملے میں ہم 166ویں نمبر پر ہیں، گویا آبادی اور آمدنی کے تناسب سے ٹیکس سے آمدنی سب سے کم اور کرپشن سب سے زیادہ کرپشن کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے یہ تالی ٹیکس دینے والے اور ٹیکس لینے والے مل کر بجاتے اور خوشحال رہتے ہیں۔ ایف بی آر بھی وہ باپ ہے جو اپنی اولاد کو کیسے بُرا کہہ سکتا ہے۔ ہر باپ بچوں کو تندرست و توانا اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہے۔ قوم کو پتہ چلنا چاہئے کہ بڑے بڑے ڈاکٹر، وکیل، تاجر، کارخانہ دار، سکولوں اور کالجوں کے کُل عوام کے منتخب نمائندے، ہائی رینک کے سول اور ملٹری افسر کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق انکم ٹیکس میں تاجروں کا حصہ 0.5 فیصد جبکہ سیلز ٹیکس میں محض ایک فیصد ہے۔ 1970ء کی دہائی میں خود تشخیصی سکیم متعارف کرائی گئی، سپیشل نیشنل فنڈ بانڈز، فارن ایکسچینج بیئرر سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے۔ اسلام میں ارتکازِ دولت اور دخیرہ اندوزی کی سخت مخالفت ہے۔ ماپ تول میں عدل کا کون خیال رکھتا ہے، ملاوٹ کے بغیر کوئی شے دستیاب نہیں۔ اسلامی اخلاقی یا ملکی قانون کی پرواہ کس کو ہے۔ انسپکٹر پولیس کے ہوں، ایکسائز، کسٹم، ادویات یا خوراک کے ناجائز دولت جمع کرنے کے لائسنس یافتہ ہیں۔ ہماری اکانومی ایک ڈرامہ ہے جس کا سکرپٹ آئی ایم ایف نے تیار کیا ہے جس کے کرداروں میں پاکستان کے 22 نہیں 2200 خاندان اور کرپشن کے سائے میں استراحت کرنے والے طاقتور ترین اعلیٰ سرکاری افسر ہیں۔ سٹیج ڈرامہ دیکھنے والے 19 کروڑ بے بس اور مجبور عوام ہیں، ہر حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی ڈرامے کے تماشائیوں کو یہ لالی پاپ دئیے جا رہی ہے کہ ان کی قسمت بدلنے والی ہے۔ آئی ایم ایف اکانومی ڈرامہ کے ہدایت کار اسحاق کو تھپکی پر تھپکی دے رہا ہے۔ عوام کو کیا معلوم کہ ان پر انفلیشن کا باپ Stagflation مسلط ہونے جا رہا ہے جیسے جمہوریت پر آمریت مسلط ہوتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف اور حکومت جگری یاروں کی طرح بانہوں میں بانہیں ڈالے چل رہے ہیں۔ 2014ء ختم ہونے تک آئی ایم ایف کو پرانا قرضے بے باق کر دیں گے جس کے بعد آئی ایم ایف ہماری کمر پر ناروا عوام کش شرائط کی نئی پَنڈ لاد دے گا۔ 5 جون کو موجودہ حکومت کے ہنی مون کا پہلا سال اپنے اختتام کو پہنچے گا، کیا دوست آنے والے برسوں میں بھی ڈالروں برساتے رہیں گے۔ اقتصادی اعداد و شمار سے کوئی کب تک اور کتنا کھیل سکے گا، ہر ڈرامے کا ڈراپ سین تو ضرور سامنے آتا ہے۔ مزا تو سب آئے گا جب دہشت گردی سے جان چھوٹے گی، توانائی کے بحران سے نجات ملے گی۔ آئندہ 5 سال میں ورلڈ بنک سے 10 ارب 20 کروڑ ڈالر ملنے کی نوید حکمِ وقت کیلئے تو ہو سکتی ہے عوام کیلئے نہیں۔ آئندہ بجٹ میں ٹیکس استثنیٰ کے خاتمے اور نجکاری سے پیسوں کی جھنکار سُنائی دے رہی ہے تاہم اچھی حکمرانی یا گڈ گورننس حقیقت میں شاید ہی کبھی دکھائی دے۔