مٹی کے مادھو
موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہمیں دو پہلوئوں پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے ایک تو ہماری سیاسی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی اور دوسرے ریاست اور فرد کے درمیان اعتماد کے فقدان کا خاتمہ۔ ان عناصر کے حصول کیلئے ہمیں اُس سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے جس سے ایک طرف تو اقتصادی مسائل کا حل ممکن ہو تاکہ آئندہ بجٹ میں غریب کو کسی طرف ریلیف مل سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ ملکی اداروں کی اصلاح بھی ممکن ہو سکے لیکن اگر پالیسیاں اُسی ڈگر پر چلتی رہیں جیسا کہ روزِ اول سے چل رہی ہیں تو غربت اور اقتصادی بدحالی کے منحوس چکر سے نکلنا ناممکن ہو جائے گا ۔
لیکن دُکھ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار و اختیارات ہَوا کا رُخ پہنچاننے کی صلاحیت سے عاری رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد چند سوالات ابھی تک ادھورے رہے ہیں کہ پاکستان کا نظام مملکت کیسا ہونا چاہئے؟ غربت کے مسئلہ کا پائیدار حل کیسے ممکن ہے؟ معاشی منصوبہ بندی میں کیا ترجیحات ہونی چاہئیں؟ ان تمام سوالوں کا جواب اُس SocialAsset سے ممکن ہے جس پر ماہرین زور دیتے رہے ہیں یعنی جمہوریت اور قانون کی بالادستی۔ لیکن جب کسی قوم کا ریاستی ڈھانچہ اس قدر کمزور ہو جائے وہ عوام کی جان و مال اور عزت نفس کی حفاظت نہ کر سکے تو اصلاحی منصوبے کیونکر ممکن ہو سکتے ہیں؟
ہمارے ہاں اقتصادی مسائل کے عفریت نے لوگوں کو عدم تحفظ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ملک میں غربت کے خاتمے کیلئے تیز رفتار ملکی ترقی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھوکھلے نعروں سے غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا اس کیلئے ہمیں امورِ خارجہ، امورِ داخلہ اور اقتصادی پالیسیوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات کا خاتمہ کرنا ہو گا اور اس کیلئے حقیقت پسندانہ حکمت عملی کی سوچ کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
مغربی سامراج سے آزاد ہونے کے بعد ہمیں مالی و اقتصادی، معاشرتی، انتظامی اور سیاسی اصلاحات کی ضرورت تھی لیکن ہماری قومی اسمبلی فوری طور پر وہ دستور تیار ہی نہ کر سکی جس سے قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے خواب میں تعطل پیدا ہوتا چلا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اقتصادی ترقی کے ثمرات کو نچلے طبقے تک پہنچانے کیلئے مخصوص کوششیں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ’’سب اچھا ہے‘‘ کی گردان نے اس عمل کو سبوتاژ کیا۔
اقتصادی ترقی کے ثمرات اگر نیچے تک پہنچ پائیں تو اس سے سیاسی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ شہریوں کو انصاف، جان و مال کا تحفظ اور عزتِ نفس جیسے عناصر کے حصول کیلئے قیام پاکستان کے فوراً بعد عملدرآمد ضروری تھا لیکن شاید ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کے لوگوں کو کبھی شہری ہی نہ سمجھا اور نہ ہی آئی ایم ایف اور عالمی بنک اس ملک سے غربت ختم کرنے میں کامیاب رہے۔
اسکی اصل وجہ یہ تھی کہ ان اداروں کا مقصد غربت کا خاتمہ نہیں بلکہ غریب ممالک کو قرضوں میں جکڑنا تھا، ہمارے حکمرانوں کا یہ رویہ رہا کہ اختیارات فرد کی ذاتی مہارت اور ہوشیاری سے حاصل کئے جاتے ہیں جبکہ اس ضمن میں ایک سچائی تو یہ بھی ہے کہ ان شہریوں کے ٹیکسوں کی وجہ سے ملک کے ادارے چلتے ہیں۔ جب اس قسم کی سوچ ارباب اقتدار میں پیدا ہو جائے کہ اقتدار کے حصول کیلئے کس قسم کی مہارت اور وعدے وعید ضروری ہیں تو ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جیسا کہ ہمارا معاشرہ ہے۔ بالعموم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستانی قوم ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہوتا ہے جن کے عوام پر حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سہولیات کم اور ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ ہے۔ اصولی طور پر تو حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کرے لیکن روزِ اول سے ہی حکومتی کارکردگی آمادہ بہ زوال ہے اور ٹیکس ہیں کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
ہم اکثر دوسرے ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن ممالک میں پولیس کا ایک سپاہی بھی بغیر اجازت گھر میں گھس جائے تو حکومت کیلئے مصیبت بن جاتی ہے اور کروڑوں روپے ہرجانہ ادا کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ ایک عام شہری جو کہ ٹیکس ادا کرتا ہے پولیس کی چھترول کا نشانہ بنتا نظر آتا ہے، یہ کیسا دُوہرا معیار ہے؟
اسکے برعکس حکومتی رویہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ اختیارات فرد کی ذاتی مہارت اور ہوشیاری سے حاصل کئے جاتے ہیں جن کیلئے انہیں کسی کا شکر گزار ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ چھیاسٹھ سالوں میں ہم نے جو تلخ تجربات حاصل کئے ہیں وہ سیاسی ماحول کی پیداوار ہیں۔
ہماری موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ قانون اور جمہوریت کی بالادستی کیساتھ ساتھ معاشرے اور ریاستوں کے درمیان باہمی اعتماد، گڈ گورننس اور Empowerment کے تصورات کو صحیح معنوں میں اطلاق ممکن بنایا جا سکے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی مفاداتی گروہ، قوانین اور اصولوں کو ذاتی مفادات کی تہہ میں لپیٹ دیا گیا تو وہاں نہ صرف انتشار، اقتصادی عدم توازن اور سیاسی عدم استحکام کی راہیں ہموار ہوئیں بلکہ General Context Free Rules کے تحت کام کرنا مشکل ہو گیا اور عوام کا بے کسی اور کسمپرسی کا کمبل اوڑھے کسی خضر کا انتظار ناممکن ہوا اور جو لوگ قوم کی رہنمائی کے وارث ہوئے وہ مٹی کے مادھو ثابت ہوئے۔