اچھی ایڈمنسٹریشن مل جائے تو بلوچستان کا احساس محرومی ختم ہوجائیگا: وزیر جوگیزئی
لاہور (خصوصی رپورٹر) ہمارا پاکستان سول سروس سے مطالبہ ہے کہ بہترین افسران کم ازکم تین سال بلوچستان میں اپنی خدمات ضرور انجام دیں۔ بلوچستان کو اچھی ایڈمنسٹریشن میسر آجائے تو اسکا احساس محرومی خودبخود ختم ہوجائیگا۔ میرے والد سردار عثمان جوگیزئی 1944ء سے 1953ء تک بلوچستان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری رہے، انہیں قائداعظمؒ سے بے حد پیار تھا۔ یہ مسلم لیگ کی ہی قوت تھی جس کی بدولت بلوچستان کے شاہی جرگہ نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ بلوچستان میں موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میںہر لحاظ سے کافی بہتر ہے اور اچھا کام کر رہی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک ضرور موجود ہے لیکن وہ اتنی طاقتور نہیں کہ اس سے خوفزدہ ہوا جائے ۔آج ہمیں ایسے لیڈر کا انتظار ہے جو اہل نظر بھی ہو، تمام حالات کو سمجھنے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ نظریۂ پاکستان کے تحفظ اور فروغ کیلئے جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی خدمات قابل قدر ہیں۔ ان خیالات کا اظہارممتاز بلوچ رہنما و سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سردار وزیر احمد جوگیزئی نے نوائے وقت اور دی نیشن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ایک سوال کے جواب میںسردار محمد جوگیزئی نے کہا کہ ماضی میں بلوچستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے صوبہ کی ترقی کیلئے خاص کام نہیں کیا۔ تاہم موجودہ حکومت نے تعلیم کیلئے خاصا بجٹ رکھا ہے اور اس پر خاص توجہ دے رہی ہے جبکہ اسی طرح صحت، زراعت و دیگر شعبوں پر بھی خاص توجہ دی جارہی ہے تاہم ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ بلوچستان کے محب وطن حلقے مٹھی بھر علیحدگی پسند عناصر کو ڈائیلاگ کے ذریعے مین سٹریم میں لانے کی کوشش کریں، انہوں نے کہا کہ ان عناصر سے بات کرنا انتظامیہ یا آرمی کا کام ہے کیونکہ ان کے کچھ مطالبات ہیںجس کیلئے حکومت سے ہی بات چیت کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اگر ایک جرگہ بنایا جائے جو مکمل طور پر بااختیار ہو اور وہ کمٹمنٹ کے ساتھ ان عناصر سے بات چیت کرے تو یہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا موجودہ حکومت نے یہ اچھا کام کیا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت پشتون گورنر اور بلوچ وزیر اعلیٰ ہے جبکہ مشرف دور میں ایسا نہیں ہوسکا تھا۔میری خواہش تھی کہ بلوچستان میں مسلم لیگ حکومت بناتی اس طرح وفاقی و صوبائی حکومتیں ایک ہی پیج پر ہوتیں۔تاہم ڈاکٹر عبدالمالک کا انتخاب بھی اچھا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کیلئے آپ ایسی قانون سازی کردیں کہ جو چیز جس گھر سے نکلے و ہی اسے استعمال کرے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچوں کیلئے کام کیا ،محترمہ بے نظیر بھٹو کی نیت بھی ٹھیک تھی لیکن انہیں وقت ہی نہیں ملا جبکہ پیپلز پارٹی نے ماضی میں یہ غلطی کی کہ بلوچستان میں نواب اسلم رئیسانی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔اس نے اور اسکے بھائی دونوں نے پارٹی کو دھوکہ کیا اور پی پی پی کے نام کو استعمال کیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہمیںپنجاب سے کوئی شکوہ نہیں ہے‘ ہماری دعا ہے کہ یہ صوبہ مزید خوشحال ہو۔ہمیں اپنے ہی لوگوں سے شکوہ ہے،بلوچستان میں گڈ گورننس کی اشد ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بلوچستان صوبہ بنا۔ جب جنرل یحییٰ ون یونٹ توڑ رہے تھے تو انہیں تجویز دی گئی تھی کہ بلوچستان کو دوصوبوں میں تقسیم کر دیا جائے اگر ایسا نہیں کرنا تو کراچی کو بلوچستان میں شامل کر دیا جائے لیکن بات نہیں بنی۔یہ ایسے ہی تھا جیسے بہاولپور کو صوبہ پنجاب میں اور دیر، سوات کو صوبہ خیبر پی کے میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے کہا مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب قیادت کا دماغ نہ ہو یا وہ اسے استعمال نہ کرے۔ انہوں نے کہا جس خطہ میں معدنیات سمیت دنیا کی ہر چیز موجود ہو تو ملک کے فائدے کیلئے اُسے ڈھونڈنا بھی ضروری ہے اوراس کیلئے حکومت کو ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے‘ اس سلسلے میں پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔سردار وزیر احمد جوگیزئی نے جناب ڈاکٹر مجید نظامی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات قابل قدر ہیں ان کی جہد مسلسل سے نئی نسل نظریۂ پاکستان سے آگاہ ہو رہی ہے۔