قومی اسمبلی : تحفظ پاکستان ترمیمی بل منظور‘ اپوزیشن نے کاپیاں پھاڑ دیں‘ سپیکر کا گھیرائو‘ ووٹنگ سے قبل واک آئوٹ جے یو آئی (ف) نے بھی ساتھ دیا
اسلام آباد (خبرنگار+ وقائع نگار خصوصی) قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان ترمیمی بل 2013ء کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا، وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زاہد حامد نے ایوان میں بل پیش کیا جسے شق وائز منظور کرلیا گیا، اپوزیشن سمیت حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام نے بل کی شدید مخالفت کی، اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور سپیکر کے ڈائس کے سامنے جمع ہوکر حکومت کیخلاف شدید نعرے بازی کی اور ’’ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے‘‘ ’’نہیں چلے گی نہیں چلے گی، غنڈہ گردی نہیں چلے گی‘‘ شیم شیم جیسے نعرے بلند کئے۔ بل کی مخالفت کرتے ہوئے پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ایم کیوایم ،جمعیت علمائے اسلام، پیپلزپارٹی شیر پائو نے ایوان سے واک آوٹ کیا۔ بل کے تحت پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا، پاک فوج، قانون نافذ کرنیوالے اداروں، غیر ملکی اہلکاروں، سرکاری مہمانوں، سیاحوں، طیاروں، گیس تنصیبات، ہوائی اڈوں، ڈیموں، جوہری و دیگر قومی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ملزمان کیخلاف معقول شہادت کی موجود گی میں یہ تصور کیا جائیگا وہ پاکستان کیخلاف جنگ کررہے ہیں، مشتبہ افراد کو وقفے وقفے سے 90 روزتک حراست میں رکھا جا سکے گا، پولیس اور پیرا ملٹری فورسز سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ افراد اور دہشت گردوں پر گولی چلانے کا اختیار حاصل ہو گا۔ اغوا، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دہشت گردی جیسے سنگین جرائم کے ملزمان کے ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی، مقدمات کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں منتقل کیا جا سکے گا، ملزمان سے تفتیش کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنائی جائیں گی، غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کیخلاف بھی کارروائی کی جا سکے گی۔ بل کی مخالفت کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا یہ بل بہت اہم ہے، ہم چاہتے ہیں مل بیٹھ کر اسکی خامیوں کو دور کیا جائے، اس بل میں یہاں تک کہا گیا گڈفیتھ میں کسی کو گولی مار دی جائے، کسی کے گھر میں بغیر اجازت گھس جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں، جلد بازی نہ کی جائے۔ زبردستی یا دبائو کے تحت منظور کیا تو سینٹ میں رک جائیگا۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا اس بل کو ہم مسترد کرتے ہیں یہ انتہائی تشویشناک بات ہے، یہ کالا قانون ہے جو ماورائے آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی نفی کررہا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت 45 ایم کیو ایم کے ارکان کو گرفتار کیا گیا۔ صاحبزادہ طارق نے کہا آج تیسری بار تحفظ پاکستان بل لایا گیا ہے، اس ملک کو پولیس سٹیٹ بنایا جا رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کراچی کے حوالے سے قانون سازی میں پی ٹی آئی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، عجلت میں قانون سازی کی تو سینٹ میں یہ بل منظور کرانا مشکل ہوجائیگا۔ حکومت اپوزیشن کی بات مان لے تو منزل آسان ہوجائیگی۔ آن لائن کے مطابق خورشید شاہ نے کہا اس قانون کو کل کوئی جابر کسی بھی شخص کے خلاف استعمال کر سکتا ہے اور کسی کو بھی وہ لوگ مار سکتے ہیں، اس حوالے سے اپوزیشن کو اعتماد میں لیں۔ اس پر وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زاہد حامد نے کہا حکومت بل پر اپوزیشن سے مشاورت کرتی ہے لیکن بلز جب ایوان میں آئے تو پھر بھی مخالفت کی جاتی ہے۔ فاروق ستار نے کہا پہلے پاکستان کے دشمن کی وضاحت کریں پھر یہ بل پاس کریں۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا بل پاس ہو گیا تو ملک پولیس سٹیٹ بن جائیگا۔ آفتاب خان شیر پائو نے کہا بل فاٹا کے ایف سی آر قانون سے بھی بدتر ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا امیر زمان نے کہا یہ آئین سے متصادم ہے، حکومت عوام پر ظلم کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان کو لبنان اور فلسطین بنانا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے کہا تحفظ پاکستان بل ٹاڈا قانون ہے، یہ بل سول آمریت کا قانون ہے۔ سپیکر نے پہلی خواندگی کے حوالے سے تحریک ایوان میں پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔ اس دوران اپوزیشن ارکان نے ایوان میں احتجاج جاری رکھا۔ سپیکر نے بل کو شق وار منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیا۔ بل کی مختلف شقوں پر وفاقی وزیر زاہد حامد نے ترامیم پیش کیں جو بل میں شامل کرلی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن ارکان ایوان میں شدید احتجاج کرنے کے بعد واک آئوٹ کر گئے۔ اس دوران ڈاکٹر علوی نے ایوان میں کورم کی نشاندہی کر دی۔ سپیکر نے گنتی کا حکم دیا۔ ایوان میں ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری نکلنے پر کارروائی دوبارہ شروع ہوئی۔ اس دوران اپوزیشن ارکان واک آئوٹ ختم کرکے ایوان میں واپس آ گئے۔ سپیکر کے بار بار کہنے کے باوجود ایس اے اقبال قادری اور دیگر اپوزیشن ارکان نے اپنی ترامیم پیش نہیں کیں۔ اپوزیشن ارکان ایک مرتبہ پھر ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ قومی اسمبلی نے مختلف شقوں میں وفاقی وزیر زاہد حامد کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم منظور کرتے ہوئے بل کی منظوری دیدی جس کے بعد زاہد حامد نے بل منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیا، اپوزیشن جماعتوں کی عدم موجودگی میں بل منظور کر لیا گیا۔ قبل ازیں قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے ’’شدید احتجاج اور ہنگامہ آرائی‘‘ کے باوجود فوجداری قانون میں ترمیمی آرڈیننس2013ء میں پیر کو مزید 120 دنوں کی توسیع کی منظوری دیدی، آرڈیننس کے تحت بجلی چوری کی روک تھام اور بجلی چوروں کی گرفتاری اور مقدمات قائم کئے جا سکیں گے، اپوزیشن ارکان نے ’’ نو نو اور شیم شیم ‘‘کے نعرے لگائے، اپوزیشن ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر ہنگامہ آرائی شروع کردی، جس سے ایوان مچھلی منڈی بن گیا جبکہ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف اور وزیر مملکت عابد شیر علی نے اپوزیشن پر شدید نکتہ چینی کی پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم‘ جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں آرڈیننس میں 120 دن کی توسیع کے خلاف ایوان سے واک آئوٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ خواجہ آصف اور عابد شیر علی نے کہا اپوزیشن جماعتیں بجلی چوروں کو تحفظ فراہم کررہی ہیں‘ سندھ حکومت نے صرف سکھر‘ لاڑکانہ اور کراچی کی بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو 110 ارب روپے سے زائد ادا کرنے ہیں جبکہ کے پی کے میں 100 فیڈر 98 فیصد نادہندہ ہیں۔ ایوان میں اپوزیشن کی غیرموجودگی میں وزیر مملکت عابد شیر علی نے کہا اپوزیشن لیڈر بجلی چوروں کے سرپرست ہے۔ پارٹیاں بدلنے والے لوگ ہمارے ساتھ ’’متھا‘‘ نہ لگائیں۔ انہوں نے کہا جنرل شجاع پاشا کی ڈکٹیشن پر پارٹیاں بدلنے والے ہم پر تنقید کر رہے ہیں۔ پنجاب میں 83ہزار بجلی چوروں کے خلاف مقدمات بنائے جس کا مطلب ہے کہ صوبائی حکومت بجلی چوری کی روک تھام کر رہی ہے، جو لوگ بجلی کے بل نہیں دینگے ان کے ٹرانسفارمر اتار لئے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اٹھارہ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی جسے چھ گھنٹے پر لے آئے ہیں۔ سپیکر نے رائے شماری کرانا چاہی تو تحریک انصاف کے جنید اکبر نے کورم پوائنٹ کی نشاندہی کی لیکن کورم پورا نکلا جس کے بعد ایوان میں آرڈیننس میں توسیع کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی نے سروس ٹریبونلز (ترمیمی) بل 2013 ء کی منظوری دیدی۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے تحریک پیش کی۔ سپیکر نے بل کو شق وار منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیا۔ ایوان نے بل کی تمام شقوں کی منظوری دیدی۔ قائد حزب اختلاف خورشید احمد شاہ نے کہا ہم نے اپنے دور میں ہمیشہ اپوزیشن کو اظہار خیال کا پورا پورا موقع فراہم کیا۔ ہم قانون سازی کے دوران کورم کی نشاندہی کے حق میں نہیں، اس کی مخالفت یا حمایت میں اظہار خیال کرنا چاہئے۔ جمشید احمد دستی نے کہا ایوان کی کارروائی افہام و تفہیم سے چلانے سے ایوان کا ماحول اچھا رہے گا۔ ہمیں بتایا جائے کیا سپریم کورٹ قانون سازی کے حوالے سے ایوان کو ہدایت کر سکتی ہے۔
قومی اسمبلی