پاکستان نے عالمی مارکیٹ میں 2 ارب ڈالر کے یورو بانڈز جاری کردیئے
اسلام آباد + کراچی (نمائندہ خصوصی + ایجنسیاں) پاکستان نے عالمی اوپن مارکیٹ میں 2 ارب ڈالرز کے یورو بانڈز جاری کردیئے جس کی خریداری میں سب سے زیادہ امریکی سرمایہ کار سرگرم رہے۔ حکومت نے 7.25 فیصد کے شرح سود پر 5 سالہ بانڈز کے ذریعے ایک ارب ڈالر حاصل کئے جو امریکہ کے ٹریژری ریٹ سے 558 بنیادی پوائنٹس اضافی ہیں جبکہ ایک ارب ڈالر 8.25 فیصد کے شرح سود پر 10 سالہ بانڈز کے اجراء سے حاصل کئے گئے جو امریکی ٹریژری ریٹ سے 556 بنیادی پوائنٹس سے زائد ہیں۔ پاکستانی بانڈز کی خریداری میں سب سے زیادہ امریکی سرمایہ کاروں نے دلچسپی لی اور 59 فیصد سرمایہ کاروں نے 5 سالہ بانڈز جبکہ 61 فیصد سرمایہ کاروں نے 10 سالہ بانڈز کی خریداری کی۔ پاکستان نے سات سال کے وقفے کے بعد بین الااقومی مارکیٹ میں بانڈ کا اجرا کیا ہے۔ پانچ سال کی مدت کے لیے جاری ہونے والے بانڈ پر شرح سود سات اعشاریہ دو پانچ فیصد اور دس سال کی مدت کی شرح سود آٹھ اعشاریہ دو پانچ فیصد ہے۔ خیال رہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں 50 کروڑ ڈالر مالیت کے بین الاقوامی بانڈ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل پاکستان تین مرتبہ بین الااقوامی مارکیٹ میں بانڈز فروخت کر چکا ہے۔ سنہ 2016 میں پاکستان کے 50 کروڑ ڈالر مالیت کے جاری کردہ بانڈ کی مدت مکمل ہو رہی ہے۔ ان بانڈز پر شرح سود پانچ اعشاریہ چھ فیصد تھی۔ سنہ 2017 میں 75 کروڑ ڈالر کے بانڈ کی مدت ختم ہو گی جب کہ سنہ 2036 میں پاکستان کو 30 کروڑ ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی کرنا ہیں۔ ماہر اقتصادیات خرم شہزاد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ سے طویل مدت کے لیے قرض لینے سے ملک میں روپے پر دباؤ اور مہنگائی کی شرح کم ہو گی۔ انھوں نے کہا ’غیر ملکی بانڈز سے حاصل ہونے والی رقم سے پاکستانی روپیہ مستحکم ہو گا اور حکومت کے پاس بڑے منصوبے جیسے ڈیم اور آبی ذخائر یا بجلی گھر بنانے کے لیے اضافی رقم موجود ہو گی۔‘ پاکستان کی طرف سے جس شرح سود پر بانڈز کا اجرا کیا گیا ہے اس پر کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح انتہائی زیادہ ہے اور اس میں معیشت کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ طاہر پرویز کا کہنا ہے کہ اس قرضے سے افراط زر بڑھے گا اور ان کا بوجھ عوام پر پڑے گا۔ بانڈز کی فروخت کے لیے کیے جانے والے روڈ شوز میں وزارتِ خزانہ کی دو ٹیمیں مختلف ممالک روانہ کی گئی تھیں۔ وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک ٹیم دبئی لندن اور نیویارک گئی جب کہ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسود کی سربراہی میں ایک ٹیم ہانگ کانگ ، سنگاپور، بوسٹن اور لاس اینجلس روانہ ہوئی تھی۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بین الااقوامی سرمایہ کاروں نے پاکستانی بانڈز کی خریداری میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور دو مرحلوں میں جاری ہونے والے بانڈز کے لیے 400 سے زائد ارٓڈرز ملے۔ ایک ایسے وقت جب یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں شرح سود انتہائی کم ہے حکومتِ پاکستان کی طرف سے یورو بانڈ کا اجراء بیرونی ممالک میں سرمایہ رکھنے والوں کے لیے منافع کمانے کا ایک آسان موقع ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے سیاست دانوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کے اربوں ڈالر بیرونی ملکوں کے بینکوں میں جمع ہیں جہاں آج کل شرح سود انتہائی کم ہے۔ تجزیہ کار ضیاء الدین نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں شرح سود کم ہے اور اس تناظر میں پاکستان کے یورو بانڈز پر دیے جانے والی شرح سود زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بانڈ زیادہ تر بیرون ملک پاکستانی خریدیں گے اور قوی امکان یہی ہے کہ پاکستانی بشمول سیاست دان جن کے بیرون ملکوں کے بینکوں میں کھاتے ہیں وہ ان بانڈ کو خرید رہے ہوں۔