3 مارچ کچہری حادثہ 11 جاں بحق‘ 40 زخمی9 اپریل :سانحہ سبزی منڈی 20 جاں بحق 60 زخمی جڑواں شہروں پر دہشت کا راج
عزیز علوی
تصاویر : سہیل ملک
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سبزی منڈی میں بدھ کو علی الصبح دہشت گردی کے ہولناک واقعہ نے ایک بار پھر آگ اور خون میں نہلا دیا۔ 20 قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں جبکہ 60 کے قریب زخمیوں کو راولپنڈی اسلام آباد کے ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا۔ سبزی منڈی میں اس دھماکے نے سیکیورٹی کے حوالے سے ایک بار پھر کئی سوال کھڑے کر دئیے کیونکہ چودہ برس قبل بھی سبزی منڈی میں اس جگہ اسی طرز کا انگور کی پیٹیاں اتارنے کے دوران ہولناک دھماکہ ہوا تھا جس میں 35 سے زائد قیمتی جانیں لقمہ اجل بنی تھیں جبکہ اس دھماکے کے کئی زخمی آج بھی محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بدھ کی صبح جب ہر طرف زندگی کی روانی تھی طلبہ و طالبات اپنے تعلیمی اداروں کی جانب جا رہے تھے سرکاری نجی دفاتر اور کاروباری حضرات اپنے اپنے راستوں پر رواں دواں تھے شہر کے ریڑھی بان‘ دکان دار اور چھابڑی والے سبزی منڈی میں فروٹ اور سبزیاں خریدنے کے لئے زندگی کی اس دوڑ میں شامل تھے۔ کہ اچانک آٹھ اور سوا آٹھ بجے کے درمیان ہولناک دھماکے سے سبزی منڈی کی پوری فضا دھوئیں‘گردآلود فضا میں بدل گئی۔ انسانی چیخیں دور دور تک سنائی دینے لگیں جبکہ راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم پر واقع آئی جے پرنسپل روڈ کے ساتھ بنی اس منڈی میں ہونے والا دھماکہ جڑواں شہروں کو لرزہ گیا۔ جیسے ہی جڑواں شہروں میں اس دھماکے کی خبر پھیلی تو گویا اس کی صورت بھی جنگل کی آگ کی طرح تھی۔ ہر دل وسوسے میں تھا کہ اس راستے سے اور اس جگہ جانے والے ان کے عزیز و اقارب پر نجانے کیا گزری ہو گی۔ راولپنڈی اسلام آباد کی ایمبولینسوں کی آوازوں کا رخ سبزی منڈی کی طرف ہوا تو شہری بھی اسی جانب دوڑ پڑے۔ سبزی منڈی کے فروٹ ٹرمینل میں امرود کی پیٹیاں اتارنے اور ان کی نیلامی کے عمل کے دوران ہولناک دھماکے سے وہاں ہر طرف تباہی ہی تباہی پھیل گئی۔ امرود کی خریداری کے لئے آنے والے غریب ریڑھی بان اور دکان دار وہاں کے مزدوروں اور منڈی کے عملے کے ہمراہ دہشت گردی کی اس ہولناک واردات کا نشانہ بن گئے۔ کوئی اپنی زندگی کی بازی ہار گیا اور کوئی اپنے جسم سے ہاتھ پاؤں گنوا بیٹھا ۔ ایک انسانی المیہ تھا جسے دیکھا نہیں جاتا تھا وہاں موجود ہر ایک میں یہی تشویش تھی کہ اس کے پیارے کا کیا بنا؟ سبزی منڈی اسلام آباد پاکستان کی سب سے بڑی منڈی قرار پاتی ہے جس میں فروٹ اور سبزی ملک بھر سے منگوائی جاتی ہے اور اسی منڈی سے آزاد کشمیر شمالی علاقہ جات‘ کے پی کے‘ راولپنڈی ڈویژن اور شمالی پنجاب کے علاقوں میں سبزی اور فروٹ جاتے ہیں۔ سبزی منڈی کے قریب ہی پاکستان میں خوراک کا سب سے بڑا ذخیرہ گندم گودام موجود ہے جبکہ اسی روڈ پر حساس ادارے کی عمارتیں‘ واپڈا کا گرڈ اسٹیشن اور پولیس لائن موجود ہیں۔ جبکہ اسی لوکیشن میں سب سے زیادہ یونیورسٹیاں‘ کالجز اور دیگر تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں۔ سبزی منڈی کی روڈ جڑواں شہروں میں تقریباً ہر شہری روزانہ اپنے سفر کے لئے استعمال کرتا ہے اسی وجہ سے جڑواں شہروں میں کام کاج کے لئے نکلنے والوں کے لواحقین کو یہ تشویش لاحق تھی کہ نجانے ان کے پیاروں کا آج کیا بنا۔ مری روڈ پر میٹرو بس منصوبے کی وجہ سے سڑک بند ہونے کے باعث بھی شہری زیادہ تر اسی راستے کو آمدورفت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ راولپنڈی کا سب سے بڑا جنرل بس اسٹینڈ پیرودھائی اڈہ بھی جائے وقوعہ سے چند فرلانگ کے ہی فاصلے پر ہے۔ آج کا یہ واقعہ اس لحاظ سے تشویشناک اور فکر انگیز ہے کہ جو قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں وہ 20 افراد نہیں بلکہ 20 افراد خاندان ہیں جو اس میں اجڑ گئے جبکہ زخمی ہونے والے بھی زیادہ تر اپاہج ہوئے ہیں وہ اپنے خاندان کے لئے معاشی اور معاشرتی سہارا تھے ان کی محرومی بھی خاندانوں کے لئے نقصان عظیم ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین کے لئے فوری طور پر نہ صرف معقول مالی امداد اعلان کرے بلکہ زخمیوں کے دیرپا اور فوری علاج پر توجہ مرکوز کرے اور اس سانحہ کے زخمیوں کو اور جاں بحق افراد کے لواحقین کے ساتھ وقتی تسلی تشفی کی باتیں کر کے ہی معاملے کو ٹھپ نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کی امداد کا کوئی مستقل طریقہ کار وضع کیا جائے۔ آئی جی اسلام آباد خالد خان خٹک‘ اے آئی جی سلطان اعظم تیموری‘ ایس پی انڈسٹریل ایریا لیاقت حیات نیازی جائے وقوعہ پر سیکیورٹی انتظامات کی ناکامی کا بھی جائزہ لیتے رہے جبکہ آر پی او راولپنڈی اختر حیات لالیکا نے بھی اپنی فورس کو حکم دیا کہ وہ آئی جی پرنسپل روڈ کی سیکیورٹی ڈیوٹی میں وفاقی پولیس کی معاونت کرے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنا منصب سنبھالنے کے فوری بعد سب سے زیادہ توجہ ہی راولپنڈی اسلام آباد کی سیکیورٹی پر مرکوز کی اور اس کے لئے راولپنڈی اسلام آباد کی پولیس کی مشترکہ پٹرولنگ شروع کرائی جس میں رینجرز کو بھی معاون کے طور پر شامل کیا گیا۔ سبزی منڈی میں جونہی دھماکے کی اطلاع ملی تو پولیس کے ساتھ ہی رینجرز نے بھی پورے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ تاکہ وہاں کسی قسم کی کشیدگی اور مزید کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہونے پائے سب سے زیادہ مسئلہ جائے وقوعہ پر جاں بحق اور زخمیوں کے عزیز و اقارب کے جذبات کو کنٹرول کرنا تھا جو بے جان حالت میں وہاں چیخ و پکار کر رہے تھے دھماکے سے سبزی منڈی اور فروٹ منڈی میں بنی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ کر بکھر گئے جس سے بھی بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ امدادی اداروں ایدھی‘ ریسکیو 1122 اور سی ڈی اے کی ایمبولینسیں جاں بحق افراد کی نعشیں اور زخمیوں کو پمس ہسپتال کی جانب دوڑتی دکھائی دیں۔ شہریوں میں امدادی اداروں کے اس جذبے کو زبردست خراج تحسین بھی پیش کیا۔ اس دوران امدادی ٹیموں کے سامنے یہ خدشہ بھی رکھا گیا کہ وہ جائے سانحہ سے فاصلے پر رہیں کیونکہ دوسرے دھماکے کا خطرہ ہو سکتا ہے لیکن امدادی ٹیموں نے کہا کہ وہ صرف اپنے فرض کی ادائیگی سے وابستہ ہیں باقی جو ہونا ہے وہ اﷲ کو خبر ہے۔ اس دھماکے کے بعد جو ابتدائی تفتیش ہوئی ہے اس کے مطابق یہ امرود ٹرکوں کے ذریعے شرقپور‘ اوکاڑہ اور قصور کے علاقوں سے اسلام آباد سبزی منڈی پہنچے پولیس امرودوں کی جائے روانگی اور جائے آمد دونوں کے ان افراد سے بھی پوچھ گچھ کر رہی ہے جو ان امرودوں کو بھجوانے اور منگوانے والے تھے۔ جائے وقوعہ پر پڑنے والا دو فٹ گہرا گڑھا بھی پولیس کی تفتیش میں نیا رخ اختیار کئے ہوئے ہے۔ کہ آیا یہ دھماکہ خیز مواد پہلے سے پیٹیوں میں موجود تھا یا اسے وقوعہ کے وقت پلانٹ کیا گیا تاہم پولیس اس بات پر اتفاق رائے رکھتی ہے کہ اس کی تفتیش کے مطابق یہ پلانٹڈ بم تھا تاہم اسے خودکش حملے کے زمرہ میں نہیں لیا گیا۔ جن نعشوں کا پولیس ڈی این اے ٹیسٹ کرا رہی ہے اس میں جاں بحق افراد کی موت کے سبب کو بھی رپورٹ میں شامل کرایا جا رہا ہے کہ دھماکے سے وہ وقوعہ کے وقت کتنے فاصلے پر ممکنہ طور پر ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭