• news

تین مارچ کی صبح ایف ایٹ اسلام آباد کچہری میں خودکش دھماکے قانون نافذ کرنے والے ادارے حادثہ کے بعد ہی متحرک ہوتے ہیں

محمد ریاض اختر
تین مارچ کی صبح ایف ایٹ اسلام آباد کچہری میں خودکش دھماکے کے بعد جڑواں شہروں میں سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کی بازگشت تھی۔ داخلی و خارجی راستوں کی کڑی نگرانی کا عمل جاری تھا۔ یار دوستوں کا کہنا تھا کہ جس طرح کے انتظامات سانحہ کچہری کے بعد اٹھائے گئے اس طرح کے نصف یا اس سے کم سیکیورٹی کی جاتی تو اتنا بڑا سانحہ نہ ہوتا‘ ابھی اسلام آباد کے واقعہ کا یہ زخم مندمل نہیں ہوا تھا کہ 9 اپریل کی صبح دہشت گردی نے وفاقی دارلحکومت کی اکلوتی سبزی منڈی کا رخ کیا جہاں صبح سویرے غریب اور مزدوروں کو ٹارگٹ بنایا گیا، یہ محنت کش راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف علاقوں سے پھل اور سبزیاں خریدنے آئے تھے، حادثہ میں20 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 60سے زیادہ بتائی جا رہی ہے پمس کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق زخمیوں میں دو تین افراد بہت سیر یس ہیں انہوں نے خون کے عطیات کی فراہمی کی اپیل بھی کی ہے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زخمیوں کو بہترین طبی سہولتیں دی جا رہی ہیں کم و بیش ایک زخمی پر ایک ڈاکٹر موجود ہے پتہ چلا ہے کہ راولپنڈی پیرودھائی کے جنرل بس اسٹینڈ کے قریب سبزی منڈی میں جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں دو سے تین ہزار افراد موجود تھے قائم مقام آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کے مطابق دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اسکی آواز دور دور تک سنی گئی تاہم بہت سا جانی نقصان بھگڈر سے ہوا‘  صبح سویرے امرود کی خرید و فروخت ہو رہی تھی ، امرود کی پیٹیوں میں چار سے پانچ کلو وزنی بارود موجود تھا… سبزی منڈی ایسا مقام ہے جہاں علی الصبح کاروباری زندگی شروع ہو جاتی ہے نماز فجر سے قبل ہی جڑواں شہروں کے لوگ سبزی اور پھل کی خرید و فروخت کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں، جس میں بہت بڑی تعداد ان مزدوروں کی ہوتی ہے جو سامان کی ترسیل اور راہداری کی مزدوری کرکے اپنا رزق کماتے ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا تھاکہ حادثہ کے وقت خوفناک مناظر تھے، سوا آٹھ بجے کے قریب دھماکہ ہوا پھر ہر طرف اندھیرا چھا گیا لوگوں کو 30,20 فٹ بلندی پر اوپر جاتے دیکھا گیا‘ دھماکہ کے بعد انسان اعضاء ادھرادھر بکھرے دیکھے گئے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیا ہوا ہے؟ سبی میں گزشتہ روز ٹرین دھماکہ کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے تھے جبکہ اگلے روز راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر سبزی منڈی میں دھماکہ میں 20 سے زیادہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ دو دن میںدو دہشت گردی کی وارداتوں نے پورے ملک کی فضاء مغموم کر دی ہے کل کے حادثہ میں انسانی ہمدردی کے مناظر بھی دیکھے گئے حادثہ کے فوری بعد لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تخت زخمیوں کو ریڑھیوں، ویگنوں اور دیگر ذرائع سے ہسپتال پہنچانا شروع کر دیا، پاکستانی قوم کا یہ جذبہ قابل رشک ہے کہ یہ قوم مصیبت میں ایک دوسرے سے معاون ہو جاتی ہے۔ صدر ممنون حسین ‘ وزیراعظم میاں نوازشریف‘ وزیراعلٰی میاں شہباز شریف‘ قائد تحریک ایم کیو ایم الطاف حسین‘ مولانا فضل الرحمن‘ چیئرمین سینٹ ، منورحسن، قاضی سراج الحق، عمران خان اورسابق صدر آصف زرداری سمیت بیشتر سیاستدانوں نے حادثہ سبزی منڈی کی مذمت کی… ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے سبی میں جعفر ایکسپریس اور اسلام آباد سبزی منڈی میں دہشت گردانہ حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے گناہ افراد کو نشانہ بنانا شریعت میں نا جائز اور حرام ہے ۔ حملوں میں تیسرے ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ایک بیان میں انکا کہنا تھا کہ عوامی مقامات پر حملے ن حرام ہیں۔ عوامی مقامات پر بے گناہ افراد کی ہلاکت نا جائز ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان اسلام آباد سبزی منڈی اور سبی میں جعفر ایکسپریس میں ملوث نہیں ہے بلوچستان اور سندھ کے عوام بھی ہمارے بھائی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پشاور اور لاہور میں بھی بم دھماکے ہوتے رہے ہیں۔ تحریک طالبان کے نام پرخفیہ ہاتھ دھماکے کرتے رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ ریاستی عناصر کے جانب سے ظلم کا جواب ایسے حملوں سے دینا بھی ظلم ہے۔ایسے حملوں میں خفیہ ہاتھ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ وہ تحریک طالبان اب بھی جنگ بندی کے اعلان پرقائم ہیں۔قائم مقام آئی جی خالد خٹک نے کہا ہے کہ فروٹ منڈی میں پولیس تعینات ہوتی ہے ، تاہم یہاں آنے والے ہر ٹرک کی تلاشی ممکن نہیں۔ وہ دھماکے کی جگہ پر میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکے میں 4 سے 5 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا، پلانٹیڈ ڈیوائس سے کیا گیا، خودکش دھماکے کے شواہد نہیں ملے۔قائم مقام آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ فروٹ منڈی میں ہونے والے دھماکے میں 5 کلو گرام تک بارودی مواد استعمال کیا گیا، دھماکے کے وقت 2 ہزار کے قریب افراد منڈی میں موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فروٹ منڈی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تخریب کاری کی اطلاع موجود نہیں تھی، پولیس کے علاوہ فروٹ منڈی کی انتظامیہ نے بھی اس حوالے سے انتظامات کر رکھے تھے لیکن ہر ٹرک اور ہر شخص کو چیک کرنا ممکن نہیں، تخریب کاری کے حوالے سے کسی کو بھی مورد الزام ٹھرانا فی الحال درست نہیں ہوگا تاہم واقعہ کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس، انسداد دہشت گردی پولیس، بم ڈسپوزل اسکواڈ، پاک فوج اور ایلیٹ فورس کے جوانوں نے جائے وقوعہ کا محاصرہ کر کے فروٹ منڈی میں موجود اشیاء کی اسکیننگ شروع کر دی ہے۔دوسری جانب چیف کمشنر اسلام آباد طاہر سعید کا کہنا تھا کہ فروٹ منڈی میں امرود کی پیٹیوں کی بولی لگائی جا رہی تھی تو زور دار دھماکا ہو گیا، اس بات کا خدشہ ہے کہ دھماکا خیز مواد امرود کی پیٹیوں میں رکھا گیا تھا، دھماکہ ریموٹ کنٹرول کا معلوم ہوتا ہے، دھماکے کی جگہ پر 2 سے 3 فٹ کا گڑھا پڑ گیا ہے تاہم مکمل تحقیقات کے بعد ہی دھماکے کی صحیح نوعیت کا پتہ چل سکے گا۔ چوہدری نثار نے دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر بھی افسوس کا اظہار کیا جب کہ آئی جی اور کمشنر اسلام آباد سے دھماکے کی رپورٹ 24 گھنٹے میں طلب کرلی گئی ہے۔
 پاکستان کی سیاست میں ان دنوں طالبان ڈائیلاگ کی خبریں عام ہیں۔ حکومت اور طالبان کی نامذد کمیٹیوں کے کئی مذاکراتی دور ہو چکے ہیں۔ اطراف سے امن کی خوشخبری کی بازگشت ہے ، سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں کہ بامقصد اور اخلاص میں ہونے والے مذاکرات کے باوجود دہشت گردی کی وارداتیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ سانحہ اسلام آباد‘کوئٹہ‘ پشاور‘ سبی اور حالیہ حادثہ کا مقصد کیا ہے؟ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں نشانہ عام آدمی ہی رہا۔ کچہری کے عام لوگ‘ ٹرین کے عام مسافر‘ سبزی منڈی کے عام مزدور اور بازار میں خریداری کرتے عام شہری …ایسا لگتا ہے کہ قوم کو اب بھی کسی ان دیکھی لڑائی کا سامنا ہے۔ حادثات میں گھر ے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بہت زیادہ بڑھ گیا ۔ پولیس‘ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حفاظتی انتظامات اپنی جگہ مگر عوام کی جان و مال کا تحفظ غریقینی کیوں ہو رہی ہے؟ دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں کے آگے بند باندھنا بہت ضروری ہے۔ اگر دہشت گردی کا یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ہم ان ہی صفحات میں کہہ چکے ہیں کہ جب تک پولیس کسی واردات کو ٹیسٹ کیس بنا کر اپنی پوری توجہ اصل ملزمان کو پکڑنے تک مرکوز نہیں کرتی، اس وقت صورت حال پر اطمینان کی چادر نہیں پڑسکتی یہ کام مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں‘ امن وامان قائم رکھنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، سوال یہ ہے کہ حکومت اپنی اولین ذمہ داری کس حد تک پوری کر رہی ہے، مقام شکر ہے کہ دہشت گردی اور طالبان ایشو پر مذاکرات سے حکومت ‘ اپوزیشن ‘ سیاستدان سب متفق ہیں… دعاگو ہیں کہ مذاکرات جلد نتیجہ خیز ہوں تاکہ صورتحال قابل رشک بن سکے۔

ای پیپر-دی نیشن