• news

ایک مثالی تعلیمی ادارہ

کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جو کام ہمارے ذمے لگایا گیا ہے اسے کیسے اور کس انداز سے کرنا چاہیے؟ ہم جہاں کہیںبیٹھتے ہیں، اپنے سیاسی نظام، دفتر نظام، تھانہ کلچر، عدالتی پیچیدگیوں اور تعلیمی نظام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں۔ اس گفتگو کی آڑ میں ہم اپنا دل جلاتے ہیں۔ اس گفتگو کو ہم عام اصطلاح میں تنقید بھی کر سکتے ہیں اس کے برعکس آج بھی کچھ لوگ اپنے دور کے تعلیمی نظام اور اپنے اساتذہ کرام کے احترام کے قصے سناتے نظر آتے ہیں استاد جب سکول میں داخل ہوتا تو بہت سے شاگرد اس کی سائیکل پکڑنے میں پہل کرنے دوڑ پڑتے اس دور میں سکولوں کی تعداد بہت کم تھی۔ کسی سکول کا استاد کسی گائوں میں آتا تو بچوں کے والدین اس استاد کی سائیکل پکڑنے، اس کی تکریم اور خدمت خاطر کرنے میں فخر محسوس کرتے استاد کی آئو بھگت کرنے والے والدین یہ سمجھتے تھے کہ یہ استاد ان کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتا ہے انہیں اٹھنا بیٹھنا سکھاتا ہے۔ انہیں اچھی باتیں سکھاتا ہے بری باتوں سے منع کرتا ہے ان کے ذہن کی کھڑکیاں کھولتا ہے اور انہیں سوچ کے نئے راستوں سے آگاہ کرتا ہے یہ باتیں میرے ذہن میں اس وقت گھومنے لگیں، جب میں گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول ریٹی گن روڈ کے سربراہ جناب رائے لیاقت علی صاحب سے ملنے گیا۔ سنٹرل ماڈل لوئر مال لاہور کے اہم سکولوں میں ایک تھا بلکہ ڈسپلن اور رزلٹ کے حوالے سے یہ سب سے بڑا سکول تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب طلبہ کی تعداد بڑھنے لگی تو ایک اور سنٹرل ماڈل سکول نے جنم لیا۔ یہ سکول اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور کے سامنے واقع ہے۔ اس کی عمارت نہایت شان دار اور پرشکوہ ہے اس سکول میں داخل ہوتے ہی کسی بڑے ادارے کا گمان ہوتا ہے مجھے کوئی بچہ کلاس سے باہر گھومتا نظر نہ آیا۔ میں نے ہر کلاس میں اساتذہ کرام درس و تدریس میں مصروف پایا میں نے رائے لیاقت علی صاحب سے پوچھا کہ مجھے اس ادارے کے ڈسپلن میں ہر دل عزیز اور محنتی وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف صاب کی خاص توجہ دکھائی دیتی ہے وہ کہنے لگے کہ گورنمنٹ کی طرف سے مجھے جو ذمے داری دی گئی ہے اسے ایمان داری سے پورا کرنا میرا فرض ہے۔ رائے صاحب نے بتایا کہ ان کے اساتذہ بہت محنتی اور وقت کے پابند ہیں میں نے اپنے اساتذہ سے کہ رکھا ہے کہ آپ کو میں بھی دفتر میں بلائوں آپ نے کلاس چھوڑ کر نہیں آنا۔ جس طرح گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو اربوں کی گرانٹ دی گئی ہے اسی طرح گورنمنٹ سنٹرل ماڈل واقع ریٹی گن روڈ کی ضروریات پیش نظر گرانٹ دی جائے تو اسے علاقہ کی بہت بڑی خدمت گردانا جائے گا ہمارے معاشرے میں ایک نفسیات بن چکی ہے کہ والدین زیادہ فاصلہ طے کر کے زیادہ فیس والے سکولوں کو ترجیح دیتے ہیں اور گورنمنٹ سکولوں کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں۔ جس طرح دنیا کبھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوتی، اسی طرح گورنمنٹ سکولوں میں اچھے اچھے سکول اور لائق خالق ذہین اور محنتی اساتذہ آج بھی موجود ہیں انہیں دیکھنے والی آنکھ چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن