جنرل راحیل کیوں بولے!
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بیان کم از کم میرے نزدیک خلاف توقع نہیں ہے بلکہ یہ ’’ بڑی دیر کی آتے آتے‘‘ والا معاملہ ہے جنرل پرویز مشرف کے کیس کی آڑ میں جس طرح فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈہ ہی نہیں کیا جا رہا تھا کہ بلکہ یہ فیصلے کئے جا رہے تھے کہ فوج کیا کرے اور اپنی خواہشات پر مبنی یہ پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں کہ فوج میں موجودہ نظام کو تلپٹ کر دے گی اگر جنرل پرویز مشرف کو سزا دی گئی، خاص طور پر جنرل پرویز مشرف کے وکلا اور بالخصوص احمد رضا قصور کے بیانات آن ریکارڈ ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فوج نے ہر صورت جنرل پرویز مشرف کو بچانے کا تہیہ کر رکھا ہے خواہ حکومت کا تختہ اُلٹنا پڑے اور چاہئے عدلیہ پر شب خون مارنا پڑے۔ امریکہ، برطانیہ، بھارت سمیت دنیا کے کسی ملک میں فوج کو بالواسطہ یا بلاواسطہ نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ جب ائرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر الٹے سیدھے تجزیے کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہ خیال نہیں رکھا جاتا کہ اس سے پوری دنیا میں فوج رسوا ہو گی اور اس طرح فوجیوں کے مورال پر کیا اثر پڑے گا۔ یادشِ بخیر کئی سال پہلے اس عاجز سمیت چند رپورٹروں کی ڈی آئی جی کی سطح کے ایک پولیس آفیسر سے لوگوں کی جانب سے شکایات پر پولیس ملازمین کے خلاف فوری کارروائی نہ ہونے پر بات ہو رہی تھی انہوں نے کہا کہ جس کے خلاف شکایات ہو اس کی سرزنش ضروری کی جاتی ہے مگر کارروائی اس لئے نہیں کی جاتی کہ اس سے فورس کا مورال ڈائون ہو سکتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے اگر پولیس جیسی فورس جو بدقسمتی سے بدنام ترین فورس ہے تاہم …… سے انکار نہیں کیا جا سکتا اس کے مورال کو بلند رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ فوج ملک و ملت کی سلامتی کا ذمہ دار ادارہ ہے اس سے وابستگان کے مورال کو بلند رکھنا ہی زیادہ ضروری و ناگزیر نہیں ہے؟ لوگ جب اپنے گھروں میں چین کی نیند سو رہے ہوتے ہیں یہ فوجی ہیں جو پنجاب کے سرحدی میدانوں میں، سندھ کے ریگستانوں میں، خیبر پی کے کے سنگلاخ پہاڑوں میں، بلوچستان کی بے آب و گیا وادیوں میں، سیاچن کی چالیس منفی سینٹی گریڈ سے بھی کم ہر شے منجمد کر دینے والے برف زاروں میں مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے سینہ سپر ہوتے ہیں، موت ہر لمحے جن کے سروں پر رقصاں رہتی ہے۔ بے شک انہیں تنخواہ ملتی ہے، درست مراعات بھی ملتی ہیں مگر محض تنخواہ اور مراعات جان دینے کا جذبہ پیدا نہیں کرتے یہ اپنے عوام سے محبت اور وطن کی ہر صورت حفاظت کے عزم پر مبنی جذبہ ہے کہ وہ جامِ شہادت نوش کرتے ہیں تو چہرے میں زندگی رائیگاں نہ جانے کا احساس مسکراہٹ بن کر پھیل جاتا ہے۔
البتہ فوج کے وہ جرنیل اور اُن کے ساتھی جو ہوسِ اقتدار کا شکار ہوئے، جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کر ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان جنرل ضیاالحق کے ادوار میں ملک و قوم کیلئے بہتر اقدامات کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے مگر بحیثیت مجموعی ان ادوار کے نتائج بہت تباہ کن ثابت ہوئے۔ بدقسمتی سے ہر جرنیلی دور میں پاکستان کی جغرافیائی حدود سُکڑی ہیں جنرل ایوب خان کے دور میں میر جاوا سمیت بلوچستان کا بڑا علاقہ ایران کے حوالے کر دیا گیا، جنرل یحیٰی خان کے دور میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا، جنرل ضیاالحق کے دور میں بھارت نے سیاچن گلیشیر پر قبضہ کر لیا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں کارگل کا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا اور اس وقت پاکستان دہشت گردی کی جس لعنت کا شکار ہے یہ ہوس پرست جنرل پرویز مشرف کے کرتوتوں کے باعث ہے۔ ان ادوار کی بدبختیوں میں سیاستدان بھی برابر کے ذمہ دار ہیں لیکن ان چار جرنیلوں اور ان کے چند درجن ساتھیوں کی وجہ سے پوری فوج کو رگیدنا بے حد مذموم اور ناقابل معافی حرکت ہے اور پھر ایسے وقت میں جب فوج قومی سلامتی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے مشکل دور میں ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں فوج نے جمہوریت اور جمہوری نظام سے وفاداری اور طرفداری کا جو عملی مظاہرہ کیا تھا جنرل راحیل شریف کی قیادت میں اس عمل میں کوئی جھول پیدا نہیں ہوا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ’’فوج اپنے وقار کا ہر صورت تحفظ کرے گی‘‘ کی جو بات کی ہے اسے بھی مختلف معنی پہنائے جائیں گے اس پر بھی کئی رنگ چڑھائے جائیں گے۔ پوری دنیا میں فوج کو عوام سے دور رکھا جاتا ہے جس سے فوج کا رُعب اور دبدبہ پیدا ہوتا ہے، چار فوجی ادوار نے اس کیفیت کو بہرحال کمزور کیا ہے جس کی بحالی فوج وقار کے ازخود تحفظ کی ضمانت ہو گی۔