مشرف : کیس پر آرمی چیف خوش نہیں‘ طالبان کیساتھ مذاکرات پر حکومت اور فوج میں اختلافات ہیں : امریکی اخبار
واشنگٹن (آن لائن) ایک امریکی اخبارنے دعو یٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس پر پاک فوج کے سربراہ خوش نہیں ، اور نہ ہی مشرف کا کیس فوج کے لئے ہضم کرنا آسان ہے ،سزا کے بعد نواز شریف مشرف کو معافی دینے کیلئے تیار ہیں۔ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر وزیر اعظم نواز شریف کی پالیسی پر حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات ہیں۔ فوج موسم سرما میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتی ہے جب کہ وزیر اعظم کا مذاکرات پر اصرار ہے۔ اگر مشرف کے وکلاء نے ایگزٹ لسٹ سے مشرف کانام ہٹانے کا عدالت سے حکم لے لیا تو حکومت اس حکم کی تعمیل کرے گی۔ ’’وال سٹریٹ جرنل نے اپنی اشا عت میں لکھا ہے کہ مشرف پر فرد جرم کے فیصلے کے بعد نواز شریف مشرف کو معافی دینے کیلئے تیار ہیں جب کہ فوج چاہتی ہے کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد ابھی مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے۔کئی طبقے تین ماہ تک فوجی ہسپتال میں مشرف کے قیام کو مشرف کیلئے فوج کی حمایت سمجھتے ہیں۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ موسم گرما کے آخر پر اگر آپریشن شروع نہ ہوا تو حکومت اور مسلح افواج کے درمیان مزید کشیدگی کی توقع ہے۔ پاکستان کے جمہوری عمل میں فوج ایک سیاسی کھلاڑی اور سیاسی طاقت ہے ،پاکستان ایک مکمل طور پر جمہوری ملک نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے سربراہ کی طرف سے مشرف کے خلاف غدار ی کیس پر رواں ہفتے انتہائی ناراضگی کا بیان سامنے آیا، جون 2013 میں موجودہ حکومت کے اقتدار کے بعد پہلی بار یہ واضح ہوا کہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی غداری کیس کے پیچھے فوج کی مایوسی ابل کر سامنے آگئی۔فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے حالیہ دنوں میں ادارے پر کی بے جا تنقید پر بیان دیا جنہیں سکیورٹی حکام نے حکومت اور میڈیا کی طرف سے پرویز مشرف کے معاملے پر کئے گئے تبصرے پر ایک حوالہ سمجھا۔ اخبار کے مطابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کہتے ہیں کہ ہم تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں وہ ایسا کچھ نہیں دیکھتے کہ پاکستان ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے بلکہ وہ پاکستان کو ترقی کرتا دیکھ رہے ہیں۔ اخبار نے مشرف کے متعلق وفاقی کابینہ کے دو وزراء خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کے بیانات کا حوالہ دیا۔ سکیورٹی حکام کہتے ہیں کہ مشرف کے متعلق ایسے بیانات ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور فوجیوں کے حوصلے کم ہوئے۔سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ’’ ماضی میں فوج نے ایک لائن کھینچی ہے، اب ہم جمہوریت کی حمایت کر رہے ہیں‘ دوسروں کو ماضی کو بھلا دینا چاہیے،کسی ادارے کو دیوار کے ساتھ نہیں لگایا جانا چاہیے۔