لاپتہ کیس: معاملات ٹھیک نہ ہوئے تو وفاق‘ اٹارنی جنرل وزارت داخلہ کو نوٹس دے سکتے ہیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق مقدمات کی سماعت میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر صوبائی سطح تک معاملات ٹھیک نہ ہوئے تو مذکورہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے وفاق، اٹارنی جنرل اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کئے جا سکتے ہیں، عدالت نے مردان سے لاپتہ محمد سیاب سے متعلق کیس میں خیبر پی کے حکومت سے 7روز کے اندر جواب طلب کرلیا ہے لاہور سے لاپتہ ہونے والے حسن عبداللہ اور خالد خلیل کے حوالہ سے آج حکومت پنجاب کو عدالت میں تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس اقبال حمید الرحمان اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے محمد سیاب سے متعلق کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل سلیمان اسلم بٹ، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خیبر پی کے نوید اختر، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ررزاق مرز اور ڈیفنس آف ہیومین رائیٹس کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ پیش ہوئیں، آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ محمد سیاب کا تعلق ضلع بٹ خیلہ سے ہے وہ اپنے دوست ظاہر شاہ اور عامر کے ساتھ مردان میں عید کی خریداری کے لئے گیا جہاں سے یہ تینوں لاپتہ ہوگئے تھے۔ مقامی پولیس نے بھی اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا، تاہم 8ماہ بعد ظاہر شاہ کو چھوڑ دیا گیا تو اس نے بتایا کہ انہیں تھانہ مردان میں رکھا گیا تھا، اس کے 4ماہ بعد محمد سیاب نے خود گھر فون کرکے بتایا کہ وہ مردان پولیس کے قبضے میں ہے، جس پر اس کے گھر والے اس کے لئے کپڑے اور سامان لیکر تھانے میں گئے تو پولیس نے دوبارہ لاعلمی کا اظہار کیا 8 روز قبل مردان پولیس نے خواتین پولیس کے ساتھ ان کے گھر پر چھاپہ بھی مارا تاہم وہاں سے کچھ بھی برآمد نہ ہوا، عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا تو انہوں نے معاملے کا جائزہ لینے کے لئے مہلت طلب کی، جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت کو ان معاملات پر سخت تشویش ہے، اب لاپتہ افراد ایک ایک کر کے سامنے آرہے ہیں راولپنڈی سے لاپتہ ہونے والا تاسف علی بھی بازیاب ہو چکا ہے، بعدازاں فاضل عدالت نے فیصلہ میںلکھا کہ اس کیس میں تمام اشارے تھانہ مردان پولیس کی جانب جا رہے ہیں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل متعلقہ پولیس کے اعلیٰ سطح کے افسروں سے رابطہ کرکے اس حوالے سے آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کریں، کیس کی مزید سماعت ایک ہفتہ بعد ہوگی۔ فاضل عدالت کے اسی بنچ نے لاہور سے لاپتہ ہونے والے حسن عبداللہ اور خالد خلیل سے متعلق کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب رزاق اے مرزا پیش ہوئے جبکہ لاپتہ حسن عبداللہ کے والدین کے وکیل منیر بھٹی نے بتایا کہ ان دونوں کو ایلٹ فورس نے اس وقت اغوا کیاتھا جب خالد خلیل کی ہمشیرہ کی منگنی ہو رہی تھی۔ ایلیٹ فورس کی دو گاڑیوں میں انہیں زبردستی ڈالا گیا۔ اس حوالے سے ان کے رشتہ داروں نے ریسکیو 15پر کال کرکے تمام تر تفصیلات سے بھی پولیس کو آگاہ کیا تھا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت کو اندازہ ہے کہ جس شخص کا لخت جگر لاپتہ ہو جائے اس کی کیا حالت ہوتی ہے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت نے اپنے 6 دسمبر2013 کے حکم میں آئی جی کو حکم دیا تھا کہ اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے لیکن آج تک رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ انہیں اس حوالے سے پولیس رپورٹ نہیں ملی۔ کچھ مہلت دی جائے، جس پر فاضل عدالت نے اپنے حکم میں لکھا کہ اس کیس میں تمام تر شواہد ایلیٹ فورس کے ملوث ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہیں اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ آج صبح عدالت میں پیش کی جائے، کیس کی مزید سماعت آج ہوگی۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے لاہور سے اٹھائے گئے خالد خلیل اور حسن عبد اللہ لاپتہ کیس میں سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی پنجاب سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی جبکہ مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے لاپتہ سیاب کی بازیابی کے لئے خیبر پی کے حکومت کو اعلی افسروں پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم مقرر کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سیاب لاپتہ کیس میں بظاہر معاملہ صوبائی حکومت کا نظر آرہا ہے تاہم ضرورت محسوس ہوئی تو وفاق اور حساس اداروں سے بھی اس حوالے سے پوچھیں گے۔ لاپتہ افراد کا آئین و قانون کے مطابق حل چاہتے ہیں تمام لاپتہ افراد بھی ملک کے شہری ہیں اس لئے قانون کے مطابق ہی کارروائی ہونی چاہئے۔ بعض لاپتہ افراد کے مقدمات میں ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ اس لئے مبینہ طورپر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کر کے ان کو بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے آئی جی پنجاب سے رپورٹ مانگی تھی۔ رپورٹ کیوں نہیں دی گئی۔ آئی جی پنجاب آج اس حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔اس کیس میں ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ معاملات سامنے آنے چاہئیں۔