سول ملٹری تعلقات
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہماری آزادی کے اِن ساڑھے چھ مختصر عشروں میں سول ملٹری تعلقات سے کچھ لاوارث سیاستدان اور موقع پرست بیورو کریٹس تو ضرور مستفید ہوئے لیکن حقیقی بڑا خسارہ ریاست نے اُٹھایا۔ پاکستان کے سب سے مضبوط، منظم اور پیشہ ور ادارے کو سیاست کے بے رحم اکھاڑے میں گھسیٹ کر پاکستان دشمن قوتوں نے بغلیں بجائیں، چونکہ ایسی صورت میں اس ادارے پر کیچڑ اُچھال کر کمزور کرنا آسان تھا۔
پہلے سے کمزور اور کرپٹ سیاسی کلچر جمود کا شکار ہونے سے سیاسی جماعتیں بھی زوال کا شکار ہو گئیں اور سیاسی آمریت نے جنم لیا۔ سول ملٹری ادوار کی اس آنکھ مچولی سے پاکستان دو لخت ہو گیا، عسکری اداروں کو بدنام کیا گیا، ناتجربہ کار فوجی اور غیر مؤثر سیاسی حکومتوں کے عہد میں سول سروس، پولیس سروس، تعلیمی نظام اور حکمرانی نہ صرف بُری طرح تباہ ہوئے بلکہ لسانیت، فرقہ واریت، لاقانونیت اور صوبائیت جیسے ریاست کُش زہر نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔
ملکی خزانے کی لوٹ مار تو اتنی بیدردی سے ہوئی کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، راتوں رات لوگ کروڑ بلکہ ارب پتی بن گئے۔ مالی دیوالیہ پن کا شکار سیاسی جماعتوں نے اربوں ڈالرز اکٹھے کر لئے اس سے چند خاندان اور سیاسی خاندان امیر ترین لیکن ریاست اور عوام خطِ غربت کی اوسط حد سے بھی گر کر Food insecurity کا شکار ہو گئے لیکن پاکستانی قوم نے ہمت نہیں ہاری۔
مہنگائی اور بیروزگاری کا شکار اور دہشت گردی کے خون سے لت پت اس قوم نے ایک سال قبل اپنا ووٹ پھر بھی جمہوریت کے حق میں دیا اور اُن سابقہ حکمران جماعتوں کا مرکز سے تقریباً خاتمہ کر دیا جن کی حکومت میں پاکستانی مفادات پر بے دریغ ڈاکے پڑتے رہے۔ لوگوں نے اپنے اعتماد کا ووٹ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اُن کی توقعات سے بھی بڑھ کر دیا۔
اب یہ سچی بات ہے کہ لوگ اپنے مسائل کے چابک دستی سے حل کے منتظر ہیں۔ اگرچہ انرجی بحران، معاشی بدحالی اور امن و امان کی بے پناہ مشکلات کو حل کرنے کیلئے حکومت نے دیانتداری سے ہاتھ ڈال بھی لیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ بہت تیزی سے ہونا باقی ہے جس کیلئے حکومت کو ساری سیاسی جماعتوں، میڈیا اور پوری قوم کی مدد درکار ہے۔ بدقسمتی سے ایسی مدد نہیں آ رہی۔
آج سے چند سال پہلے جو لوگ ایک فوجی حکمران کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے سڑکوں پر لمبے جلوس نکال رہے تھے وہی لوگ آج عوام کی ایک مضبوط منتخب حکومت کو سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ ڈال کر گرانے کے درپے ہیں۔
پاکستان میں چونکہ عدل کا نظام انتہائی غیر تسلی بخش ہے، جج حقائق کی بجائے شہادتوں پر فیصلے دینے کا پابند ہے، اگر جج کو ذاتی طور پر یہ پتہ بھی ہو کہ اصل قاتل کون ہے لیکن شہادتوں کو رشوت دے کر یا ڈرا دھمکا کر بٹھا دیا جائے تو قاتل کو جج رہا کرنے کا قانوناً پابند ہے، انصاف کرنے والا خود انکوائری نہیں کر سکتا۔ احتساب پاک سرزمین پر صرف غریبوں کیلئے ہے اس لئے سیاسی وڈیروں پر کوئی قانون لاگو نہیں۔ میڈیا بھی خبر کو جو مرضی ہے Twist دے سکتا ہے۔ کچھ ٹی وی اینکرز سیاسی مباحثوں میں مکمل جانبداری دکھا کر اپنی ریٹنگ تو شاید کچھ بہتر کر لیتے ہیں لیکن اپنی کریڈیبلٹی کو ضرور مکمل تباہ کر لیتے ہیں۔
ایک طبقہ بڑا زور دے کر یہ کہہ رہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی بجائے وزیرستان کی بستیوں پر ہوائی اور زمینی حملے کرنے میں بالکل دیر نہ کی جائے، اُن کو بخوبی علم ہے کہ اس میں ساری احتیاط کے باوجود بے گناہ سویلین کا بہت سارا جانی اور مالی نقصان ضرور ہو گا اور ساتھ ہی حملے کے بعد پاکستان سے دہشت گردی ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
دوسری طرف وہی لوگ تحفظِ پاکستان قانون میں اُن شقوں کو حقوقِ انسانی کے خلاف ہونے کا واویلا کر رہے ہیں جن میں لکھا ہے کہ یہ قانون قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے والے اُن لوگوں پر لاگو ہو گا جو فائر بم، خودکش جیکٹ، بائیو لاجیکل ایجنٹ، کیمیکل ہتھیار، ایٹمی مواد یا پلاسٹک ایکسپلوسو Explosive رکھتا ہو یا گیس پائپ لائن، پولیس سٹیشن یا تعلیمی اداروں پر حملوں میں ملوث ہو یا اغوا برائے تاوان اور بھتہ لینے کا مرتکب ہو یا کسی فرقہ و لسانی گروپ، مذہب یا اقلیت کے کسی آدمی کو نقصان پہنچانے کا ملزم پایا جائے۔
ہاں یہ ضروری ہے کہ بے شک قوانین بڑے سوچ سمجھ کر بنانے چاہئیں اور اس میں بے گناہ لوگوں سے سیاسی بدلے چکانے کی بالکل کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے لیکن سزا تو تب دی جا سکے گی جب کسی جرم کی شہادت ملے گی۔ تفتیش کرنے کے وقت کو 30 سے بڑھا کر 90 دن کیا گیا ہے اور دہشت گردوں پر اپنے دفاع میں فائر کھولنے کا حق سکیورٹی فورس کو دینے کی بات ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ان قوانین کی بھینٹ کئی دفعہ بے گناہ لوگ بھی چڑھ سکتے ہیں جو بہت دکھ دہ ہے جیسے انگلینڈ میں چند سال پہلے ایک بے گناہ انگریز شہری کو برطانوی پولیس نے چھ سات گولیاں مار کر ہلاک کر دیا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ کوئی دہشت گرد ہے، اس غلطی کے باوجود برطانیہ نے اپنے قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
یہ بات درست ہے کہ ریاست اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے چونکہ آپ اچھی سیاست سے ریاست مضبوط کر سکتے ہیں لیکن آپ کی موقع پرستی کی بدنیتی پر مبنی سیاست سے ریاست کو زبردست نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے مثبت سیاست کا تقاضہ یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کے بیان کو جمہوریت پر حملہ تصور نہ کیا جائے اور نہ یہ پراپیگنڈہ کیا جائے کہ سول ملٹری تعلقات ایسے نہیں جیسے ہونے چاہئیں۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے، اس کا ہر جوان، ایئر مین اور سیلر بہت ہائی مورال میں ہے۔ ساری تکالیف کے باوجود فوج میں کسی بے چینی یا خودکشی کی کوئی خبر نہیں جبکہ ہندوستان کی سری نگر میں متعین فوج کے ایک سپاہی نے اگلے دن اپنے پانچ ساتھی ہلاک کر ڈالے اور خودکشی کر لی۔
اس کے علاوہ اس سال جنوری میں ایک امریکی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی 40 ہلاکتوں میں سے 24 سپاہیوں نے صرف ایک ماہ میں خودکشی کی۔ پاکستان کی فوج کا مقابلہ سخت ترین جنگجوئوں کے ساتھ ہے اس لئے پاکستان کی جانی قربانیاں ان سارے ممالک کی اجتماعی قربانیوں سے زیادہ ہیں اس لئے فوج کے وقار کو بلند رکھنے کی ذمہ داری صرف جنرل راحیل شریف کی ہی نہیں تمام 20 کروڑ عوام کی ہے۔
فوج پیشہ ور ہے اور سیاست میں اس کی مداخلت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جنرل راحیل شریف ایک بہترین انسان اور ایک پیشہ ور فوجی مجاہد ہیں اور وہ اس نازک موڑ پر ملکی سلامتی کو درپیش خطرات سے مکمل آگاہ ہیں۔