پاکستان کے پانی کی بندش اور احسن اقبال کا احتجاج
پاکستان کے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک بیان میں احتجاج کیا ہے کہ بھارت پاکستان کے دریائوں کا پانی روک رہا ہے۔ پاکستان واٹر بورڈ کے چیئرمین نے امید ظاہر کی ہے کہ بھارت کی توجہ دلائی جائے کہ وہ سندھ طاس معاہدہ کی پاسداری کرے اور اس میں طے شدہ پاکستان کے پانی کا حصہ جاری رکھا جائے۔ احسن اقبال وزیر منصوبہ بندی بڑے پختہ فکر اور تاریخ سے باخبر، اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدان ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے دریائوں کا پانی روکنے پر احتجاج مجبور ہو کر کیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی پاکستان واٹر بورڈ کے چیئرمین نے اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے متعلقہ حکام سے بات کریں گے کہ ہمارا پانی نہ روکا جائے۔ یہ بھارت سے اچھے تعلقات برقرار رکھنے اور متنازعہ امور کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کی باتیں ہیں۔ ان کو آزماتے رہنا چاہیے۔ تاکہ بلاوجہ تلخی نہ پیدا ہو لیکن بھارت سے ہمیں اس طرح کی رکاوٹیں اور تنگ کرنے کی کوششوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ یہ دریا کشمیر کی بلند وبالا، زرخیز اور شاداب پہاڑیوں سے نکلتے اور پاکستان کی زمینوں کو سیراب کرنے کے بعد بحرہند کی وسیع اور گہری آغوش میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہی ان پانچ دریائوں کا فطری راستہ اور انجام ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر تقسیم ہند کے ساتھ ہی بین الاقوامی طور پر ستلج، بیاس اور راوی کے پانی کے حقوق بھارت کو سندھ، چناب اور جہلم دریائوں کے پانی کے حقوق پاکستان کو دیئے گئے تھے۔ اس معاہدہ کا نام سندھ طاس کا مشہور معاہدہ ہے۔ اس معاہدہ میں یہ بھی طے کیا گیا تھا دونوں ممالک ان دریائوں کے پانی سے استفادہ کرنے کیلئے باہمی مشاورت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اپنے اپنے علاقہ میں ان دریائوں پر ڈیم بنانے کیلئے باہمی مشاورت اور رضامندی حاصل کی جائیگی۔ چنانچہ پاکستان نے میرپور میں منگلا ڈیم تعمیر کیا اور بھارت نے جموں میں سلال ڈیم تعمیر کیا تھا۔ ڈیم میں پانی کی ضرورت کے مطابق استعمال کے بعد دریائوں کی روانی جاری رکھی جائیگی۔ یہ انتظام جاری تو ہے لیکن کبھی سیلاب کی صورت میں یا کبھی خشک سالی سے دریائوں میں پانی کی کمی کے باعث بھارت کو بھی اور پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ دونوں ممالک میں بات چیت کے ذریعے ان مشکلات کو دور کر لیا جاتا ہے لیکن بھارت کو یہ برتری حاصل ہے کہ وہ ان دریائوں کے ابتدائی حصوں پر کنٹرول رکھتا ہے۔ دریائوں میں پانی کم ہو جائے تو بھارت اپنے حصے کا پانی لے گا تو پاکستان کو پانی کم ملے گا۔ دریائوں نے بالآخر پاکستان کی زمینوں سے گزر کر ہی سمندر میں جانا ہے۔ پاکستان کا نہری نظام ان دریائوں کے سہارے چلتا ہے۔ انکا پانی روک لیا جائے تو پاکستان کا نہری نظام متاثر ہوتا ہے۔ یہی صورتحال اب پیدا ہوئی ہے جس کی طرف ہمارے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اشارہ کیا ہے۔ ظاہر ہے بھارت پہلے اپنے پانی کی ضرورت پوری کرے گا پھر دریائوں کا پانی آگے کیلئے چھوڑے گا۔ اس انتظام کیلئے سندھ طاس معاہدہ میں شرائط رکھی گئی ہیں لیکن دریائوں کے ابتدائی حصہ پر کنٹرول بھارت کا ہے۔ ہم اس کی مروت اور رواداری کے محتاج ہیں۔ اس کا واحد حل اور دریائوں کی معمول کی روانی کی ضمانت کشمیر کے مسئلہ کی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے میں ہے۔ تقسیم ہند کے اصولوں کیمطابق اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے نتیجہ میں جموں کشمیر پاکستان کا فطری اور تاریخی حصہ بن جاتا ہے۔ 6 دریائوں کی تقسیم بھی قدرتی ہو جاتی ہے۔ ستلج، بیاس اور راوی بھارت میں اور سندھ، چناب اور جہلم پاکستان میں آتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ میں سندھ، چناب اور جہلم کے دریائوں کے پانی کی تقسیم بین الاقوامی طور پر طے کی گئی تھی۔ ایسا اس لیے کرنا پڑا کہ بھارت نے تقسیم ہند کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کر کے کشمیر پر اپنا فوجی قبضہ کر لیا تھا۔ اب ہم مجبور ہیں کہ اپنے تین دریائوں کے پانی کیلئے بھی سندھ طاس معاہدہ کا سہارا لیں اور بھارت کے رحم وکرم پر ہیں۔ ہمارے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے بیان میں یہی مجبوری جھلک رہی ہے۔