دو قومی نظریہ… یا… نظریہ پاکستان
پاکستان کرہ اراض کا واحد ایسا ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریہ پر رکھی گئی اور وقت کی سفاک طاقتوں سے اس نظریہ کو منوانے کیلئے اسلامیان ہند نے جو انگنت قربانیاں دیں اقوام عالم کی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ برسہا برس کی جدوجہد کے بعد ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والوں نے ایک قائد کی قیادت میں پاکستان اس نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں جس کا طرز زندگی، ثقافت اور دین سب سے الگ ہے۔ اس قوم کا کسی بھی دوسری قوم میں یا قومیت میں ضم ہونا قطعی طور پر ناممکن ہے۔
دو قومی نظریہ کیا یا اس کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا انداز بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی اس تقریر سے کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے 8 مارچ 1944 کو علی گڑھ یونیورسٹی میں طلبا کے اجتماع میں کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا۔ ’’پاکستان اس دن معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا‘‘ اسی طرح 17 نومبر 1945 کو بابائے قوم نے ایڈورڈ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’ہم دونوں قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں، ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ حیات دیتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ہم اس ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن، تصفیہ کشمیر اور دریائوں کے پانی کے مسئلہ کے حل کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر پانی اور کشمیر کے معاملات کا حل نکالے بغیر کوئی شخص یا گروہ بھارت سے پاکستان کی دوستی کے متعلق سوچ رہا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ حالات وواقعات اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ جب ڈاکٹر مجید نظامی یہ کہتے ہیں کہ بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا تو اس دعوے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کا تازہ ترین ثبوت بھارت میں وزارت عظمی کے بڑے امیدوار نریندر مودی کا انتخابی منشور ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کشمیر کو دیئے گئے خودمختاری کے خصوصی حقوق ختم کر دیئے جائینگے۔ گائے کے ذبیحہ پر پابندی کی حمایت کی جائیگی۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی جائیگی۔ ملک کا نیوکلیئر ڈاکٹرائن بدلا جائیگا جس کا اہم نکتہ یہ ہے کہ بھارت لڑائی میں پہلے ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کرے گا‘‘۔
اس منشور کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں ہندو قیادت کی مسلمانوں کے بارے میں سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔کشمیر کے خصوصی حقوق کو ختم کرنا صرف مودی ہی کی سوچ یا پروگرام نہیں۔ یہ پوری ہندو قیادت کا منتہائے مقصود ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سینکڑوں برس گزرنے کے باوجود ہندو ذہنیت نہیں بدلی۔ اب بھی امت مسلمہ کے بارے میں ان کا منشور وہی ہے جو تحریک پاکستان کے موقعہ پر تھا۔ اس منشور کے پس پردہ مسلمانوں کے عقائد پر ڈاکہ زنی اور انکے مذہبی فرائض کا گلا گھونٹنا ہے۔ ایسے حقائق کی روشنی میں پاکستان کی بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی سوچ یقیناً احمقوں کی جنت کے خاکے تیار کرنے کے مترادف ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ بھارت بالخصوص بھارت کی ہندو قیادت کے مسلم دشمن رویوں کو دیکھنے کے باوجود پاکستان کے بعض عاقبت نااندیش عناصر اس سے دوستی اور تعلقات بڑھانے کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔
اب کچھ عرصے سے ان عناصر کی طرف سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کا واویلا کیا جا رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی عقل کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ کیا پاکستان بھارت کو اس لئے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دے دے کہ اس بھارت نے 1947ء سے پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو اپنے پنجہ استبداد میں لے رکھا اور اپنے وطن کشمیر کو آزاد کرانے کی جدوجہد کرنے والے لاکھوں کشمیری نوجوانوں کو شہید کرچکا اور کرتا رہتا ہے۔
اب اس کی قیادت کشمیر کو دیئے گئے خصوصی حقوق ختم کرنے کے بارے میں ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ بھارت پاکستان آنیوالے دریائوں پر اپنے زیر تسلط علاقوں میں غیر قانونی بند باندھ کر پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کی روش پر قائم ہے جس کا مقصد پاکستان کے سرسبز علاقوں میں پانی کی ترسیل بند کرنا اور اسے ریگستانوں میں تبدیل کرنا ہے۔ تاکہ پاکستان کے مسلمانوں کو ایتھوپیا ایسے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑے یہاں کے لوگ اناج کے ایک ایک دانے کو ترسیں۔ آخر کن مخصوص مقاصد کے تحت بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کی سوچ آگے بڑھائی جا رہی ہے اور اس کا پرچار کیا جا رہا ہے؟ جو شخص پاکستان کی سرزمین پر رہتا ہے پھل پھول رہا ہے۔ اس سے رزق حاصل کر رہا ہے۔ اس کی آب و ہوا کے مزے لے رہا ہے۔ زندگی کی سہولتوں سے لطف اٹھا رہا ہے۔ اگر وہ کسی الیکٹرانک میڈیا پر آ کر ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اظہار کرتا ہے کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ہیں تو ایسے شخص کو اس ملک کی مجلس اور سیاسی سماجی زندگی سے لطف اٹھانے سے گریز کرنا چاہئے۔ آخر ایسے لوگ ملک کے محب وطن کروڑوں لوگوں کو کس بات پر اکسانا چاہتے ہیں؟
بلاشبہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہے مگر کسی ملک کا بڑا ہونا ہی چھوٹے ملک کے لئے دوستی اور پسندیدہ ترین ملک کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ نہ ہی کسی بڑے ملک کو کسی دبائو میں آ کر پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دیا جا سکتا ہے دنیا ایسے ممالک سے بھری پڑی ہے جو پاکستان سے بھی رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کہیں چھوٹے ہیں۔ مگر وہاں کی قیادت سے اپنی پرخلوص کوششوں سے اس ملک کو ترقی سے ہمکنار کرکے بڑے ملکوں کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا مطلب ہندو بھارت کے مسلمان دشمن عزائم پر اسے ’’ہلاشیری‘‘ دینا ہو گا۔
رہی بات پاکستان کو اسلامی، فلاحی اور ماڈرن ملک بنانے کی، تو جناب ڈاکٹر مجید نظامی کا کہنا بجا ہے کہ ایسا حکیم الامت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ کے فرمودات کی روشنی ہی میں کیا جا سکتا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ ہے کہ یہ دونوں جلیل القدر ہستیاں جس نظریہ کے تحت مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے حصول میں سرگرم تھیں انہیں ایسے وطن کے نظام کے بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ جب پاکستان حاصل ہو چکا تو بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ نیاسلامیہ کالج پشاور میں 13 جنوری 1948ء کو اپنے خطاب میں کیا۔
’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک قطعہ اراضی حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔
اسی طرح اسلامی فلاحی اور ماڈرن ریاست کے بارے میں حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے خیالات کو کسی سے پوشیدہ نہیں رہی بطل جلیل تو تصور پاکستان کے خالق تھے جو ملت کی بنیاد مذہب کو قرار دیتے تھے۔
جب اس کے برعکس تحریک پاکستان میں رخنہ ڈالنے کے لئے درارلعلوم دیوبند کے مولانا حسین احمدمدنی نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ ’’اس زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں بنتیں‘‘ تو شجر اسلام پر برسنے والے اس تیر سے مفکر ملت علامہ اقبالؒ تڑپ اٹھے اور انہوں نے جس طرح اس کا جواب دیا وہ تاریخ تحریک پاکستان میں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے لکھا۔ …؎
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبیت
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربیست
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبیست