ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
پاکستان میں گزرتی ہوئی زندگی کی بدصورتی بدشکلی اور بدمزگی کو تخلیقی سطح پر جتنا منیر نیازی سے محسوس کیا، کسی شاعر نے نہیں کیا۔ وہ التجا کو پسند نہیں کرتا تھا۔ احتجاج کرتا تھا اور اسے اجتہاد بنا دیتا تھا۔ منیر نیازی کا غصہ بھی خوبصورت تھا۔ اس کی نفرت بھی سوہنی تھی۔ منیر نیازی نے جب یہ کہا لاہور شہر کا یہ حال تو نہ تھا
اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہئے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے
بستیوں پر عذاب آنے سے پہلے کوئی صاحب راز اسی طرح کلام کرتا ہے۔ جس شہر میں ہم رہ رہے ہیں اور جو کچھ یہاں ہو رہا ہے تو اب یہاں عذاب آئے گا یا انقلاب آئے گا۔
میرا خیال ہے کہ اب عذاب اور انقلاب میں بھی کوئی فرق نہیں رہا۔ یہ شہر اپنے رہنے والوں کے دلوں میں دشمنی، حسد، لالچ، کرپشن، ظلم اور جھوٹ کی آگ میں خود بھسم ہو گا۔ منیر کہتا تھا کہ اب تو اس شہر کو بددعا دینے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ اب ہجوم بڑھ گیا ہے، رونق کم ہو گئی ہے۔ ہم نے ایک ایسا ملک بنایا جو پہلے تھا ہی نہیں۔ ہم نے اپنی خاک سے دوبارہ پیدا ہونا تھا۔ منیر کی شاعری ایک نئے ملک کی ہمسفر ہے جو تخلیقی طور پر ابھی وجود میں نہیں آیا۔ وہ اپنے وطن کی اصل سے وصل پانے کے لئے بے تاب تھا۔ کہیں تو گڑ بڑ ہوئی ہے۔ ہم نے نظریے کو بھلا دیا جو اندھوں کو صاحب نظر بنا سکتا ہے:
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
ایک خوبصورت افسوس اس کی ہر دم ڈوبتی آنکھوں میں لکھا ہوا تھا۔ اردگرد پھیلتی ہوئی افراتفری نفسانفسی بے کار بھاگ دوڑ بیان بازی دنیا داری لالچ کا حاصل کچھ نہیں۔ مگر ہمارے شعر و ادب کے لوگ یہی بے حاصلی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ شعر تو ہماری مکمل نفسیات کا خلاصہ ہے:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
میں نے اپنی اصل سے وصل پانے کی بات برادرم ڈاکٹر اختر شمار کے لئے بھی لکھی ہے۔ اس نے جو تحریر منیر نیازی کے لئے لکھی ہے اسے پڑھ کے مزہ آیا اور پھر سن کر بھی مزہ آیا۔ منیر نیازی کی سالگرہ پر میرے یار تنویر ظہور کی کتاب کے حوالے سے تقریب پذیرائی کے لئے شاندار تقریب پنجابی انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی۔ ڈاکٹر صغرا صدف نے اس ادارے کو ایک مرکز بنا دیا ہے۔ وہ اپنی پسندیدگی کا دائرہ پھیلاتی چلی جاتی ہے۔ اسے خبر ہے کہ منیر نیازی کی ناپسندیدگیاں بھی بہت طاقتور تھیں۔ اس نے ایک پنجابی ادارے کو قومی ادارہ بنا دیا ہے۔ بہت اچھے شاعر خاقان حیدر غازی نے صغرا صدف کا بہت ساتھ دیا ہے۔ تقریب کی کمپیئرنگ میں بھی وہ اپنی محبتوں کے چراغ جلاتا ہے۔
نامور تخلیقی اور ادبی مصور اسلم کمال نے منیر نیازی کا پورٹریٹ اپنی گفتگو میں بنانا چاہا۔ ایک پورٹریٹ میں منیر نیازی کے ہاتھوں میں جھاڑو ہے اور وہ ”شاعروں“ کو حشرات الارض کی طرح اپنی زندگی سے نکال دینا چاہتا ہے۔ خان اعظم نے کہا کہ پورٹریٹ اچھا ہے مگر اور اچھا ہوتا اگر میرے ہاتھ میں جھاڑو کچھ بڑا ہوتا۔ سعداللہ شاہ نے حلقہ ارباب ذوق میں نئی بات کی فرمائش پر کہا کہ یہ جو ہمارے اردگر حشرات الادب ہیں۔ ان سے کب نجات ملے گی تو منیر نیازی نے اسے کہا کہ میں تمہاری اس بات سے خوش ہوا ہوں کہیں استعمال کروں گا۔ کامیاب آدمی اور سرخرو شاعر منصور آفاق نے بتایا کہ اجمل نیازی کے بارے میں منیر نیازی نے کہا کہ وہ طیب آدمی ہے مگر اتنا غیر سنجیدہ ہے کہ زندگی کو بڑی سنجیدگی سے گزارنا چاہتا ہے۔ میں تو ایک قلندر آدمی ہوں۔ میرے لئے منیر نے یہ بات اگر کہی ہے تو یہ بھی میرا اعزاز ہے۔ منصور سے میری محبت میری مٹی سے جڑی ہوئی ہے۔ مگر اسے معلوم ہے کہ سنجیدگی اور غیرسنجیدگی دراصل ایک ہی چیز ہیں۔ وہ خود اتنا سنجیدہ ہے کہ زندگی کو غیرسنجیدگی سے گزار کر بہت آگے جا چکا ہے، جہاں کئی لوگ اس سے پہلے پہنچے ہوئے ہیں۔ میں تو نجانے کہاں سے کہاں پہنچنا چاہتا ہوں۔ اور یہ دوست کہیں نہ کہیں پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہم دونوں ایک ساتھ سفر پر نکلے تھے مگر ہمسفر نہ رہ سکے۔
منیر خان ایک بار کراچی گیا تو نامور شاعر جون ایلیا کہنے لگا منیر نیازی کیا ہوا تیرے بال سفید ہو گئے ہیں۔ منیر نے کہا بچو جو مجھ پر گزرتی ہے تم پر گزرتی تو تمہارا خون سفید ہو جاتا:
کالے کٹھن پہاڑ دکھوں کے سر پر جھیل کے دیکھے
میری طرح کوئی اپنے لہو سے ہولی کھیل کے دیکھے
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے بہت اچھی گفتگو کی مگر کئی بار میرے قبیلے کے سردار کے لئے بزدل کا لفظ استعمال کیا۔ مجھے مثبت معنوں میں بھی یہ لفظ اچھا نہیں لگا۔ اس حوالے سے ان کا ایک جملہ یاد آیا ہے۔ منیر کے جملوں کے جلال و جمال میں ایک کمال تھا جو زوال آشنا دلوں میں کبھی نہ سما سکا۔ اس کے فقروں میں فقیرانہ شاہی تھی۔ کیسے کیسے امکان اس کی شخصیت کے مکان میں تھے جو لامکاں کی طرح شاعری کے جہانوں میں بکھری اور نکھری ہوئی تھی۔ اس کی آواز میں بھید بھری اداسی سوئی ہوئی تھی۔ کچھ ڈرے ڈرے لوگ کہتے ہیں کہ وہ ڈراتا بھی تھا۔ لوگو سنو۔ ڈرو اس وقت سے جو آنے والا ہے۔ خوف خواہش اور خواب منیر کے ہاں دوست بنتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کہنے لگا۔ جنگل میں بلی اتنی ڈری کہ شیر بن گئی۔ خوف سچے آدمی کو بہادر بناتا ہے اور ڈرے ہوئے لوگ خدا سے نہیں ڈرتے۔
تنویر ظہور سچے دل کا ایک مخلص کارکن دوست ہے اور یہی ٹھیک آدمی کی نشانی ہے۔ اس نے اپنی انوکھی کتاب ”منیر نیازی کی یادیں باتیں“ مرتب کر کے ہم پر ایک احسان کیا ہے اور دوسرا احسان یہ ہے کہ کتاب کا انتساب ایک بہت دل والے خواب اور انقلاب کو یکجا کرنے والے شاعر ڈاکٹر خالد جاوید جان کے نام کیا ہے۔ اس کی ایک نظم شہید بی بی بے نظیر بھٹو نے اپنی تقریر میں پڑھی تھی۔ ”میں باغی ہوں میں باغی ہوں“ محکوم لوگ تو باغی ہوئے اور محروم و مظلوم ہو گئے مگر حکام انقلابی ہونے کی جھوٹی خواہشوں میں غلام بن کے رہ گئے۔
بیگم ناہید منیر نیازی خان اعظم کی یاد سے ایک شہر آباد کرنا چاہتی ہے۔ جہاں وہ رہنا چاہتے تھے۔ ہم باجی ناہید نیازی کے نوکر ہیں مگر ہمیں بھی شاید اس شہر میں رہنا نصیب نہیں ہو گا۔
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو