معاشرے میں توازن نہ ہو تو انصاف ملنا ختم ہو جاتا ہے: جسٹس خلجی عارف
اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان/ نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ کے جسٹس خلجی عارف حسین گذشتہ روز اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے۔ وہ سپریم کورٹ کے 4سال 7 ماہ 7 دن تک جسٹس رہے۔ ان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس، سپریم اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضٰی کی جانب سے عشائیہ دیا گیا۔ اس دوران جسٹس خلجی عارف حسین نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب معاشرہ میں توازن برقرار نہیں رہتا تو لوگوں کو انصاف ملنا ختم ہو جاتا ہے، وہ تو سپریم کورٹ میں بطور Paying Guest آئے تھے اور اب واپس اپنے اصلی گھر یعنی بار ایسوسی ایشن میں جا رہے ہیں۔ چاہے ہم کسی بھی عہدے پر ہوں، جمہوری نظام میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ’’شہریوں کی برابری‘‘ ہے۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اور جن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، اس میں شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حقوق اللہ تو معاف ہو سکتے ہیں مگر حقوق العباد کی معافی نہیں۔ ہمیں اپنے سے نیچے والوں کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے۔ انسان کو اخلاقیات اور بھائی چارے کا دامن کسی طور پر ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک انسان کو پھول کی طرح دوسروں کو خوشبو اور خوشی دینی چاہئے اور خزاں کے بعد بہار کے لئے امید اور صبر سے کام لینا چاہئے۔ خلجی عارف حسین 13 اپریل 1949ء کو پیدا ہوئے، بطور وکیل ان کی انرول منٹ 15 نومبر 1979ء کو ہوئی، 20 جون 1978ء کو ہائی کورٹ اور 1993ء سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ 1984-85ء کے دوران کراچی ہائی کورٹ بار کے جوائنٹ سیکرٹری بنے پھر 1987-94ء کے دوران بار کے سیکرٹری بن گئے۔ 1995-2000ء میں پاکستان بار کونسل کے ممبر بنے، 27 جولائی 2002ء میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس جبکہ 5 ستمبر 2009ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس تعینات ہوئے۔