بیچارہ پاکستانی کسان اور بھارتی سبسڈی کی یلغار
سید شعیب الدین احمد
shoaibsyed59@gmail.com
بھارت میں عام انتخابات کا مرحلہ وار سلسلہ جاری ہے۔ 81 کروڑ ووٹر لوک سبھا (قومی اسمبلی) کی 543 نشستوں کے لئے 9 مراحل میں ووٹ ڈالیں گے۔ بھارت جمہوری ریاست سے زیادہ ایک ہندو ریاست ہے۔یہ ہندو کی مسلمان دشمنی ہی ہے کہ اس نے انگریز کی 100 سالہ غلامی کے بعد مسلمان کی آزادی کو برداشت نہیں کیا۔ بھارت نے پاک بھارت سرحد کو خون کی لکیر میں بدل دیا۔ ہندو نے 1947ء میں قتل و غارت کی بہیمانہ تاریخ رقم کی مگر اس کے دل کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی۔ اس نے کشمیر پر جو مسلم ریاست تھی فوج بھیج کر قبضہ کر لیا۔ بھارت نے آج 66 برس بعد بھی ’’آزادی‘‘ کے اس دور میں کشمیری مسلمانوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ بھارت 1971ء میں مشرقی پاکستان میں مداخلت کرکے اور مکتی باہنی کی آڑ میں اپنے فوجی بھیج کر مشرقی پاکستان کو پاکستان سے سے کاٹ کر بنگلہ دیش بنا چکا ہے مگر ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں سے آج بھی امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) نے نریندر مودی کو اپنا لیڈر چنا ہے جو مسلمانوں کا بدترین دشمن اور قاتل ہے جس کے دور وزارت اعلیٰ میں گجرات میں مسلمانوں کا بدترین قتل عام ہوا۔ مسلح ہندوئوں نے گھروں اور بازاروں کو آگ لگائی۔ بھارت کا ہندو آج بھی کشمیر سے آنے والے دریائوں پر بند باندھ کر پاکستان کا پانی روک رہا ہے اور پاکستان کو بنجر اور ریگستان بنانے کی راہ پر چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر تیار نہیں ہے۔ بھارت نے ثقافتی یلغار کر رکھی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب ہو رہا ہے۔ ہمارے رہن سہن، بول چال میں ہندو مذہب کا اثر بڑھ رہا ہے۔ پاکستانی سینمائوں میں اب بھارتی فلمیں ریلیز ہوتی ہیں۔ پاکستان کے ہر گھر میں کیبل پر بھارتی فلمیں اور ڈرامے بغیر سنسر پاکستان اور مسلم دشمنی پر الفاظ سمیت چل رہے ہیں۔ مگر اسی پر بس نہیں بھارت تجارت کی آڑ میںاب پاکستانی معیشت تباہ کرکے پاکستان کو اپنی منڈی بنانا چاہ رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی بدترین صورتحال کا شکار ہے۔ رہی سہی کسر گیس کی کمی نے پوری کر دی ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی اور جنرل مشرف کے دور کے بعد روپے کی قیمت میں تقریباً 40 سے 45 روپے کمی ہو چکی ہے۔ ڈالر اب 60 سے 65 روپے کی بجائے 110 کی حد کو چھو کر 100 روپے کے آس پاس ہے۔ پاکستان میں زراعت کی تباہی کے لئے بھارت نے پاکستان کا پانی روک رکھا ہے۔ رہی سہی کسر مہنگی کھاد، زرعی ادویات، زرعی مشینری، بیج نے پوری کر دی ہے۔ بھارت اپنی زراعت کو اربوں روپے سبسڈی دیتا ہے۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سبسڈی 125 ارب سے زیادہ ہے۔ اس قدر سہولیات سے استفادہ کرنے والی بھارتی زرعی پیداوار کا مقابلہ پاکستانی کسان کیسے کرے گا۔ یہ پاکستانی حکمرانوں کے لئے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے مگر مسلم لیگ (ق) کی حکومت ہو یا پیپلز پارٹی کی اور اب مسلم لیگ (ن) کی تمام حکومتیں بھارت کو MFN (پسندیدہ ترین ملک برائے تجارت) کا درجہ دینے کے لئے تیار بیٹھی ہیں۔ یہ حکمران بھول گئے ہیں کہ بھارت میں کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی دونوں کے دل میں پاکستان ایک کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت کی توسیع پسندانہ سوچ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس طاقت کو ختم یا چھیننے کے لئے بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی شروع کر رکھی ہے۔ خیبر پی کے ہو یا بلوچستان دہشت گردوں کے پیچھے ’’را‘‘ کا ہاتھ ہے۔ ان حالات میں اپنی کمزور معیشت کو مزید تباہ کرنے کے لئے بھارتی مصنوعات کی ’’کھلی آمد‘‘ پاکستانی زراعت اور صنعت کو تباہ کر دے گی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھارت کو (MFN) کا درجہ دینے کی مخالفت کے بعد اب موجودہ حکمرانوں نے نیا راستہ ڈھونڈا ہے۔ (MFN) کو اب (NDMA) کا نام دیا گیا ہے یعنی تجارت میں (بلاامتیاز اور مساوی رسائی‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاک بھارت تجارت کا توازن بھارت کے حق میں ہے۔ ہم بھارت سے سبزیاں اور کپاس درآمد کر رہے ہیں اور بھارت کو سیمنٹ بنانے کے لئے دھڑا دھڑ جپسم برآمد کر رہے ہیں۔ بھارت پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات خریدنے پر تیار نہیں۔ ان مصنوعات پر اس نے 80 سے 120 فیصد ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے جبکہ ہم بھارتی سبزیاں اور دیگر مصنوعات بغیر ڈیوٹی درآمد کر رہے ہیں۔ بھارت نے رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں پاکستان سے 12 کروڑ 27 لاکھ ڈالر کا سامان منگایا جبکہ پاکستان نے 38 کروڑ 98 لاکھ ڈالر کا سامان درآمد کیا۔ اس سے پاکستان اور بھارت میں تجارت کا عدم توازن بالکل واضح ہے۔ بھارتی انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ کانگریس جیتے یا بی جے پی دونوں کی پالیسیاں کی بنیاد پاکستان دوستی نہیں پاکستان دشمنی پر ہی ہو گی۔ میاں نواز شریف ہوں یا میاں شہباز شریف دونوں کی خواہش ہے کہ بھارت سے باہمی تجارت بڑھائی جائے۔ مگر پاکستان میں ہندو کی ذینیت سے واقف حیران ہیں کہ وہ بھارت جو کشمیر، سرکریک، سیاچن کا مسئلہ حل کرنے پر تیار نہیں۔ پانی پر قبضہ کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کو یکساں اور مساوی تجارت کا حق کیسے دے گا۔ بیشتر پاکستانیوں کا مشورہ ہے کہ بھارت سے تجارت ضرور کریں مگر مساوی بنیاد پر کریں۔ بھارت کا بنیا ہر جگہ منافع ڈھونڈتا ہے۔ پاکستانی تاجر اپنے ملک کا مفاد پہلے سوچیں۔ اگر فیصلہ ملک کے مفاد میںبہتر ہو گا تو تاجروں کو بھی یقیناً زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔