• news

پڑھتا جا شرماتا جا

جب کسی سماج میں مایوسی اور بے حسی عروج پر ہو اس میں شرمانے کی حس بھی ختم ہوجاتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ان کے ادارے بجلی کے بل ادا نہیں کرتے ایسے ڈیفالٹرز بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی تشویشناک بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ذمے دار ہیں۔ دستاویزی ثبوتوں کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذمے 492ارب روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں۔ سندھ حکومت نے 52 ارب ، آزاد کشمیر حکومت نے 32 ارب روپے، خیبرپختونخواہ نے 20 ارب روپے، وفاقی حکومت نے 8 ارب روپے، پنجاب حکومت نے 6 ارب روپے اور بلوچستان نے 4 ارب روپے واپڈا کو ادا کرنے ہیں۔ فوج نے ایک ارب روپے، پاکستان ایئر فورس نے 278 ملین روپے اور پاکستان نیوی کے ذمے 33 ملین روپے ہیں۔ سی ڈی اے 2.10 ارب روپے ، چیئرمین سینٹ (آفس اور رہائش) 112 ملین روپے، وزارت اطلاعات 211 ملین روپے کے ڈیفالٹر ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے اکثر محکمے بھی واپڈا کے نادہندہ ہیں۔ اگر پاکستان میں احتساب کا صاف اور شفاف نظام ہوتا تو واپڈا کبھی دیوالیہ نہ ہوتا۔ پانی اور بجلی کے وزیر مملکت عابدشیر علی بجلی چوروں کو للکاررہے ہیں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو انہیں شاباش دینی چاہئیے مگر افسوس ان کو تحقیر اور تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مصدقہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 28 بڑے بجلی چوروں کو گرفتار کیا گیا مگر کچھ عرصے کے بعد ”مک مکا“ کرکے ان کو چھوڑ دیا گیا اور انہیں عدالتوں سے ریلیف کی سہولت فراہم کی گئی۔ جو بھی حکومت اقتدار میں آتی ہے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے۔ اس سال ایک لاکھ افراد کو ٹیکس دینے کے قابل سمجھا گیا ان میں سے 75 ہزار افراد کو نوٹس جاری کیے گئے جن میں صرف 6500 افراد نے ٹیکس ریٹرن فائل کی ہے۔ نادرا نے ایسے تیس لاکھ افراد کی نشاندہی کی ہے جو عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں مگر کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ سابق وزیرخزانہ شوکت ترین کے مطابق ایف بی آر میں سالانہ 500ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے ان حالات میں ایف بی آر سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
موجودہ حکومت نے انتخابی وعدوں کے مطابق ٹیکس چوروں کا احتساب کرنے کی بجائے ان کو نرمی اور محبت سے ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دی مگر تاحال اس نرم پالیسی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ٹیکس کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کی رائے ہے کہ ایف بی آر کے اکثر افسر چونکہ نا اہل اور بددیانت ہیں اس لیے میاں نواز شریف کی انویسٹمینٹ سکیم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایف بی آر کے کئی افیسر امیر افراد کے مشیر بن چکے ہیں جو ان کو ٹیکس بچانے کے مشورے دیتے ہیں۔ 2011ءمیں 1.44 ملین افراد نے ٹیکس ریٹرن داخل کی مگر 2013ءمیں صرف 8 لاکھ 40 ہزار افراد نے ٹیکس دیا۔ پاکستان میں 0.4 فیصد افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ انڈیا میں 4.7 فیصد، فرانس میں 58 فیصد اور کینڈا میں 80 فیصد افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ گزشتہ نو ماہ کے دوران ٹیکس محاصل میں 130 ارب روپے کی کمی آئی ہے۔ حکومتیں ٹیکس وصول کرنے کی بجائے پرانا قرض ادا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے نیا قرض لے لیتی ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری نے ان اراکین اسمبلی اور سینٹ کو بے نقاب کردیا جو ٹیکس نہیں دیتے یا بہت کم دیتے ہیں۔ جب ٹیکس لگانے والا آئینی ادارہ ہی ٹیکس نہیں دے گا تو ملک میں ٹیکس کلچر کیسے فروغ پاسکے گا۔ دکھاوے کے لیے اراکین پارلیمنٹ کے اثاثوں کی چھان بین کے لیے دس رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی اپنی برادری کے لوگوں پر کیسے ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفتیش کے لیے اعلیٰ سطح پر غیر جانبدار کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیئے جو ان کا کڑا احتساب کرسکے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر احتساب کے ادارے کے لیے بڑے پرجوش تھے وہ ”بابا اور چالیس چوروں“ کا پروپیگنڈا کرتے نہ تھکتے تھے مگر اقتدار میں آکر خاموش ہیں اور احتساب ان کی ترجیح نہیں ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع کے مطابق کلیدی سرکاری عہدوں پر فائز افسر قواعد و ضوابط کے برعکس این جی اوز اور بیرونی ایجنسیوں کے لیے بھی کام کررہے ہیں اور قومی خزانے سے تنخواہوں کے علاوہ بھی لاکھوں روپے ماہانہ کمارہے ہیں۔ سرکاری افسروں نے آف شور بنک اکاﺅنٹ کھول رکھے ہیں۔ وہ بیرونی ڈونر ایجنسیوں سے کنسلٹینسی کے نام پر جو بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں وہ اپنے بیرونی اکاﺅنٹس میں جمع کرادیتے ہیں تاکہ ان کو ٹیکس نہ دینا پڑے۔ دستاویزی ثبوتوں کے مطابق کچھ سرکاری افسر کافی انٹرنیشنل (Coffe International) کے لیے کام کررہے ہیں جو یو کے ڈونر ایجنسی کا معاون ادارہ ہے۔ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے مطابق کوئی سرکاری افسر کسی پرائیویٹ کمپنی یا ڈونر ایجنسی کے لیے کام نہیں کرسکتا۔ اگر وہ حکومت سے این او سی لے کر ڈونر ایجنسی کے لیے کام کرے تو اسے معاوضے کا کچھ حصہ قومی خزانے میں جمع کرانا پڑتا ہے۔ حکومت کے جو اعلیٰ افسر ڈونر ایجنسیوں کے لیے کام کررہے ہیں ان میں ملتان کے سابق کمشنر (جو حال ہی میں او ایس ڈی بنا دئیے گئے ہیں) شامل ہیں۔ یہ افسر کافی انٹرنیشنل (سی آئی) سے 375 پونڈ یومیہ معاوضہ وصول کررہے ہیں۔ موٹر وے پولیس کے ڈی آئی جی بھی اس ایجنسی کے لیے کام کرکے 220 پونڈ یومیہ وصول کرتے ہیں جو گیارہ لاکھ روپے ماہانہ بنتے ہیں۔ بعض اعلیٰ افسر طویل رخصت کی اجازت لے کر بیرونی ڈونر ایجنسیوں کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں اور سرکاری تنخواہ کے علاوہ لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔ جب تحقیقی رپورٹر ایسے افسروں کا مو¿قف جاننے کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو وہ بات کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی کے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ تین حکومتیں (جنرل مشرف، آصف زرداری، میاں نوازشریف) اتصلات انٹرنیشنل (یو اے ای) سے 800 ملین ڈالر وصول نہیں کرسکیں جو پی ٹی سی ایل کے شیئرز خریدنے کے سلسلے میں اس کمپنی کے ذمے واجب الادا ہے۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق حکومت نے چونکہ معاہدے پر عمل کرتے ہوئے پراپرٹی (جائیدادیں) کمپنی کے نام منتقل نہیں کیں اس لیے کمپنی نے 800 ملین ڈالر روک رکھے ہیں۔ ایک ذرائع کے مطابق پاکستان کے بڑے سیاستدان اور ان کے بچے دوبئی میں مقیم ہیں اور نجی و تجارتی مراعات حاصل کرتے ہیں اس لیے حکومت کی جانب سے اتصلات انٹر نیشنل پر رقم کی ادائیگی کے لیے دباﺅ نہیں ڈالا جاتا۔ کلیدی آسامیوں پر فرائض انجام دینے والے افسروں کے مطابق گزشتہ دس ماہ کے دوران نظام حکومت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ زرداری دور کی پالیسیاں جاری ہیں البتہ کرپشن کے انداز اور حربے تبدیل ہوئے ہیں....
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاﺅں ننگے ہیں بے نظیروں کے
آج کے دور کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عوام سمجھتے بوجھتے ہوئے حسب سابق خاموش تماشائی بنے رہیں گے یا حالات کو تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد پر آمادہ ہوں گے۔ پاکستان میں کرپٹ ذہنیت کو تبدیل کرنے اور مافیاز سے جان چھڑانے کے عوامی انقلاب کی ضرورت ہے۔ انقلاب کے بعد ہی حالات بدلیں گے۔ نیا سورج طلوع ہوگا اور نئے دور کا آغاز ہوگا۔ 18 کروڑ عوام کے لیے چند ہزار کرپٹ افراد سے جان چھڑانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

ای پیپر-دی نیشن