پاکستان کا ہر شہری جانتا ہے فوج اور حکومت میں کتنی ہم آہنگی یا نفاق ہے: بی بی سی
کراچی (بی بی سی) آپ پاکستان کی کسی سڑک پر کسی راہ گیر سے پوچھ لیں کہ بھائی کیا صدرِ مملکت یا ان کے بعد بلحاظِ عہدہ سینیٹ کے چیئرمین یا اپنی ہی منتخب کردہ قومی اسمبلی کے سپیکر کا نام جانتے ہو؟ نوے فیصد لوگ شاید سوچ میں پڑ جائیں کہ کیا نام ہے؟ کوئی بھلا سا نام ہے شاید، کچھ فلاں ابنِ فلاں وغیرہ… مگر آپ جیونی سے سکردو تک کسی بھی شخص سے بّری فوج کے سربراہ کا نام پوچھ لیں۔ امید ہے اسّی فیصد سے زائد شہریوں کو موجودہ بلکہ ریٹائرڈ آرمی چیف کا نام بھی معلوم ہوگا۔ اور ایک فیصد سے بھی کم شہریوں کو شاید فضائیہ یا بحریہ کے موجودہ سربراہ کا نام بھی معلوم ہو۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اب انہی شہریوں میں سے کسی ایک سے ذرا پوچھ لیں کہ جی ایچ کیو اور سویلین حکومت کے درمیان قومی پالیسیوں پر کتنی ہم آہنگی یا نفاق ہے؟ شائد ہی کوئی عام پاکستانی اسے ایک فضول سوال سمجھے بلکہ وہ اپنی بساط کے مطابق آپ کو ضرور بتائے گا کہ فوجی قیادت اور حکومت کا تعلق پہلے کیسا تھا، اب کیسا ہے، آئندہ کیسا رہے گا، اور پھر انہی اسّی فیصد سے زائد شہریوں میں سے کسی ایک سے ذرا پوچھیے کہ مسلح افواج کے بعد افرادی قوت کے اعتبار سے دوسرے بڑے سرکاری ادارے پاکستان ریلوے کا چیئرمین کون ہے؟ آیا تیسرے بڑے قومی ادارے واپڈا اور حکومت کے درمیان پاک امریکہ تعلقات پر ہم آہنگی ضروری ہے؟ چوتھا بڑا ادارہ پاکستان سٹیل طالبان سے مذاکرات اور پانچواں بڑا ادارہ پی آئی اے بھارت کو قریبی ساجھے دار قرار دینے کے حق میں ہے کہ نہیں؟ کیا محکمہ جنگلی حیاتیات واقعی چاہتا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل ہو؟ کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن کو موجودہ حکومت کی افغان پالیسی پر کوئی اعتراض تو نہیں؟ امکان یہی ہے کہ کوئی بھی راہ گیر آپ سے یہ کہتا ہوا گذر جائے کہ ’’یا تے تسی پاغل ہو یا فیر مینوں بنا رئے ہو‘‘۔ کیا آپ کو افغانستان میں اتحادی افواج کے سپاہ سالار جنرل میک کرسٹل یاد ہیں۔ وہ امریکی فوج کے سب سے قابلِ قدر اور ڈیکوریٹڈ جنرلوں میں سے ایک تھے۔ بس ایک دن وائٹ ہاؤس کی افغان حکمتِ عملی پر کسی انٹرویو میں کچھ نامناسب سی رائے دے دی اور پھر صدر اوباما نے جنرل صاحب کی معذرت کے باوجود ان کا استعفیٰ فوراً لے لیا۔ تو کیا افغانستان میں لڑنے والی امریکی فوج کا وقار و مورال ڈاؤن نہیں ہوا ہوگا؟ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ایک سیاسی حکومت سے دوسری سیاسی حکومت کو اقتدار منتقل ہوگیا لیکن ہر نسل کے ذہنی خلیوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ پاکستان میں سویلینز کو اقتدار سونپا نہیں جاتا، اس شرط پر دیا جاتا ہے کہ لے بچے تو بھی تھوڑا کھیل کود کر ٹائم پاس کرلے۔ مگر سن گلی میں پوچھے بغیر مت بیٹھنا اور آوارہ لمڈوں کی صحبت میں خاندان کی ناک مت کٹوا دینا۔ اس وقت پاکستانی جمہوریت غریب محلے میں رہنے والی نسبتاً آسودہ حال آپا غفورن کی سلائی مشین جیسی ہے جس کی گلی کے ہر گھر کو ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کل ہر گھر میں سلائی مشین آجائے۔ تب تک آپا غفورن کے بات بے بات نخروں پر جی جی کرکے سر ہلانے کے سوا چارہ بھی تو نہیں۔