عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے
آج کل جمہوریت فوج اور عدلیہ تینوں زیر بحث ہیں سیاسی پارٹیوں کے کردار اور جمہوریت کے تسلسل اور فروغ پر جگہ جگہ اور بار بار بات ہو سکتی ہے لیکن عدلیہ اور فوج کو جا بجا اور بے جا اپنی گفتگو کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا… سیاسی پارٹیوں کے کردار کا تعلق لیڈروں کے کردار کے ساتھ جا کر جڑتا ہے جبکہ اداروں کے سربراہان ہوتے ہیں اور ساتھ میں اعلٰی افسران اور انتظامیہ ہوتی ہے جبکہ لیڈروں کے پیچھے ’’سیاسی ورکر‘‘ ہوتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سیاسی ورکر ’’جیالے‘‘ کہلاتے ہیں‘ آج کل ’’بلاول کے انداز میں جیالا پن دکھائی دیتا ہے مسلم لیگ (ن) کے ورکروں میں جیالا پن تو کم ہے مگر ’’جذباتیت‘‘ کی سطح بہت بلند ہے اور یہ سطح ان کے لیڈروں میں نوازشریف کی نسبت شہبازشریف میں زیادہ ہے نوازشریف کو موقعہ ملے تو وہ سارے فیصلے تن تنہا کرکے صرف عملداری میں لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں وہ ’’مشاورت‘‘ پر اتنا یقین نہیں رکھتے… نوازشریف کے تن تنہا فیصلے کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج بعض اداروں کے سربراہان صرف ’’مزاح‘‘ تک محدود کر دیئے گئے ہیں جبکہ ملک کا دانشور طبقہ پوری سنجیدگی کے ساتھ ایک طرف کو ہو چکا ہے انہی رویوں کی بناء پر تحفظ پاکستان کے بل کے منظور ہونے کے مسئلے میں اپوزیشن سے مشاورت کی بھی اشد ضرورت موجود ہے… مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے اس طرح کے رویوں کے نتیجے میں ایک اور مسئلہ بھی سامنے آ چکا ہے کہ ایک طرف تو نوازشریف کے وزراء مشرف کیس کے معاملے میں اتنا جذباتی پن اختیار کر چکے ہیں کہ آرمی چیف کو یہ کہنا پڑا کہ پاک فوج اپنے ادارے کے وقار کا ہر حال میں تحفظ کر سکتی ہے جبکہ نوازشریف اس جذباتی پن کے پیچھے سلیقے کے ساتھ صرف یہ بیان دیتے رہے کہ معاملہ عدالت میں ہے!
؎شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے
…ملک دراصل اس وقت ایسے مسائل میں گھرا ہوا ہے کہ جلد بازی اور جذباتی پن کی بجائے ہر چیز کو ٹھنڈا کرکے کھانے کی کہاوت پر عمل کرنا ضروری ہو چکا ہے ورنہ نتیجہ تو ایسا ہی نکلتا ہے کہ جیسے مشرف کیس میں نکلا ہے بات سمجھنے کی اتنی ہے کہ جمہوریت کا تحفظ‘ قانون کی ’’بالادستی‘‘ اور افواج کا احترام تینوں ایک جسم میں دل‘ دماغ اور آنکھوں کی طرح اہم ہیں… لیکن یہ بات سوچنا ضروری ہے کہ جمہوریت کا تحفظ کرکے جمہوریت قائم کرنے کے بعد اس کے ثمرات ایک عام آدمی تک پہنچ رہے ہیں کہ نہیں… کہیں عوام کے دلوں میں یہ احساس بڑھتا تو نہیں چلا جا رہا ہے کہ منتخب نمائندے ان کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں اور جمہوریت کے قائم ہونے کا فائدہ ان کو حاصل نہیں ہو رہا ہے بلکہ یہ فائدہ پھر سے چند مخصوص گروہوں تک محدود ہو چکا ہے اور سچ یہی ہے کہ جمہوریت کے قائم ہونے کے بعد جب اس کے ثمرات ایک عام آدمی تک نہیں پہنچتے تو تاریخ بھی گواہ ہے کہ عوام نے شروع کے دنوں میں مارشل لاء کا اس لئے بھی خیرمقدم کیا ہوا ہے کہ نااہل اور نامقبول سیاستدانوں سے عوام تنگ آ چکی تھی اس لئے ضروری ہے کہ حکومت ’’جذباتی پن‘‘ اختیار نہ کرے اور سندھ میں بلاول بھی جیالے پن کو ترک کرکے حالات کی سنگینی کا اعتراف کرکے چلیں اور پھر ان دونوں پارٹیوں کے لیڈر وقتی خوشیاں بانٹنے اور جلد بازی میں ڈھول ڈھمکے اور ہلا گلا برپا کرکے ایک دوسرے کے مقابلے میں کانفرنسز اور میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کرنے کی انتقامی کارروائیوں میں نہ لگ جائیں کیونکہ اس قسم کی سرگرمیوں کے نتائج کچھ بھی نہیں نکل رہے اور ملک میں موجود عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں بھی یہ ایکٹیوٹیز مددگار ثابت نہیں ہو رہی ہیں جبکہ ملک کو نازک حالات میں نہایت دانشمندانہ اور سنجیدہ حکمت عملی کی ضرورت ہے ورنہ یوں نہ ہوتا کہ تھر کی ریت پر اگتی ہوئی بھوک اور مرتے ہوئے بچے موت کا شکار ہو رہے ہوتے اور دوسری طرف ’’می رقصم‘‘ کا سلسلہ چل رہا ہوتا می رقصم کا یہی پیسہ ترقیاتی کاموں اور بھوکی مرتی ہوئی عوام کے مسائل کو حل کرنے پر خرچ کیا جا سکتا تھا اسی طرح پنجاب میں ورلڈ ریکارڈ بنانا اپنی جگہ مگر ملک کے اندر ریکارڈ خراب کروا کر ورلڈ ریکارڈ بنانے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ سٹریٹ کے بچوں کی فٹ بال کی ٹیم نے بہت بڑا بجٹ خرچ کئے بغیر ورلڈ ریکارڈ بنا لیا ہے… ڈبلیو بی او یے ٹس نے کہا تھا ’’بہترین لوگوں میں یقین کلی کا فقدان ہوتا ہے جبکہ بدترین لوگوں میں شدید جذبات کی انتہا ہوتی ہے‘‘… ملک میں موجود دوسری دو سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں میں الطاف بھائی بھی اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ اپنا مؤقف بھی درست طریقے سے بیان نہیں کر پاتے شکر ہے کہ عمران خان آج کل ذرا کم جذباتی پن کا شکار ہوتے ہیں… اس ساری صورت حال میں عدلیہ اور فوج ایسے ادارے ہیں کہ جو جیالا پن یا جذباتی پن دکھائے بغیر باوقار انداز میں آگے بڑھتے ہیں سب جانتے ہیں کہ ان حالات میں فوج مارشل لاء نہیں لگانا چاہتی اور عدلیہ اس مرحلے تک آ پہنچی ہے کہ جہاں مراعات یافتہ طبقے کے کسی فرد کا بھی احتساب ممکن ہو سکتا ہے لہذاٰ اس ملک کے لئے اب جیالی ‘ جلالی ‘ خیالی یا جذباتی انداز اختیار کئے بغیر اس کے ’’جمالی‘‘ حسن کو دیکھنا ضروری ہو چکا ہے سعدی کا شعر ہے :
؎ بلبلا مژدہ بہار بیار
خبر بد بہ بوم شوم گزار
… یعنی اے بلبل تو بہار کی خوشخبری لا اور بری خبریں نحس الو کے لئے چھوڑ دے کیونکہ الو ویرانیوں میں رہتا ہے اور ویرانیوں کا شیدا ہے اس لئے کہ دل ‘ دماغ اور آنکھوں کو مل جل کر اس بات کی فکر کرنا ہوگی کہ کون ہے جو ہماری بہاروں کا دشمن ہے اور ہمارے باغ باغیچوں کو کھنڈروں اور ویرانوں میں تبدیل کرنے کے لئے کوشاں ہے… تاکہ ہر شاخ پر ہی الو بیٹھا نظر نہ آئے!!
اپنا خیال رکھیئے گا!!