• news

56ء سے آئین شکنی کے کیس کھولنے کی استدعا مسترد‘ مشرف کا ساتھ دینے والوں کا بھی ٹرائل کیا جائے: وکیل‘ اس پر عدالتی فیصلہ آ چکا: اکرم شیخ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے اعلان کیا ہے کہ غداری کیس میں اکرم شیخ کی بطور پراسیکیوٹر تقرری کے خلاف درخواست کا فیصلہ 18 اپریل کو سنایا جائے گا۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل (6) کے تحت کارروائی کا باقاعدہ آغاز کیا جائے مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے عدالت سے استدعاکی کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں مشرف کو مشورہ دینے والے لوگوں کو بھی ٹرائل میں شامل کیا جائے صرف ایک شخص کا ٹرائل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے جبکہ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ عدالت کا دائرہ اختیار صرف مشرف کے کیس تک محدود ہے 1956ء سے مقدمات نہیں کھول سکتے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ مشرف کے وکلاء کی جانب سے پراسیکیوٹر اکرم شیخ کی تقرری کو چیلنج کرنے کی درخواست پر فیصلہ سنایا جائے شہادتیں ریکارڈ کرنے سے قبل یہ فیصلہ سنایا جانا ضروری ہے کیونکہ اس سے بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ اب متفرق درخواستوں کی گنجائش نہیں کیس کو آگے بڑھایا جائے اور شہادتیں ریکارڈ کی جائیں اور اس کے بعد باقاعدہ ٹرائل کا آغاز کیا جائے۔ مزید متفرق درخواستوں کی گنجائش نہیں رہی اب یہ غیرضروری ہے کہ 100 لوگوں کو شامل کیا جائے یا 200 لوگوں کو شامل کیا جائے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا فرمان گزٹ نوٹیفکیشن ہے خصوصی عدالت ایکٹ کے تحت تمام ملزمان کا اکٹھا ٹرائل ہونا ضروری ہے۔ عدالت 23 مارچ 1956ء سے آئین شکنوں کے خلاف کارروائی کر کے تاریخ رقم کرے۔ اس پر جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ ہمارا دائرہ سماعت موجودہ کیس ہے ہم 1956ء سے کیسز کی سماعت نہیں کر سکتے۔ حکومتی شکایت بھی اس کیس کے حوالے سے ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ 3 نومبر کے اقدام میں جن لوگوں سے مشاورت کی گئی تھی ان میں گورنرز، وزراء اعلیٰ، چیف آف آرمی سٹاف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور کور کمانڈرز اور دیگر سٹیک ہولڈرز شامل ہیں ان کے نام استغاثہ کو فراہم کئے جائیں۔ غداری ایکٹ کے تحت تمام ملزمان کا اکٹھے ٹرائل ہونا ضروری ہے۔ یہ استغاثہ پر ذمہ داری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ان افراد سے مشاورت نہیں کی گئی تھی۔ آئین کے آرٹیکل 12-2 کے تحت دیکھا جائے تو وہ کہتا ہے کہ 26 مارچ 1956ء سے آرٹیکل چھ کا اطلاق ہو گا۔ فیئر ٹرائل کا حق بھی ہونا چاہئے اور آرٹیکل 25 کے تحت مساوی سلوک بھی ضروری ہے اس لئے وہ تمام افراد جنہوں نے معاونت کی تھی ان کا اکٹھا ٹرائل ہونا چاہئے۔ جو انکوائری کی گئی ہے اس میں مختلف دستاویزات اور گواہوں کے بیانات کی نقول ٹرائل سے سات روز قبل ملزم کو فراہم کی جانی ضروری ہیں۔ مشرف کے خلاف شکایت کا دار و مدار ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ پر ہے تحقیقاتی رپورٹ ریکارڈ پر نہیں لائی گئی۔ ایف آئی اے کی ٹیم کے رکن حسین اصغر نے اختلافی نوٹ بھی لکھا تھا اسے بھی سامنے نہیں لایا گیا۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے وکیل دفاع کے دلائل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ غداری کیس میں دیگر افراد کو شامل کرنے سے متعلق 7 مارچ 2014ء کو خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی ہے جس میں یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ اگر دیگر افراد کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تو عدالت ان کے خلاف بھی کارروائی کرنے پر غور کر سکتی ہے۔ وکیل د فاع کی جانب سے انکوائری رپورٹ کے مطالبے کے بارے میں قانون دیکھنا پڑے گا۔ سیکشن 265C کا حوالہ دے کر عدالت کو گمراہ کیا جا رہا ہے یہ کیس ضابطہ فوجداری کے تحت چلایا جا رہا ہے اس معاملے پر عدالت اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ سپیشل ایکٹ کارروائی کو ضابطہ فوجداری کی کارروائی کے ساتھ مکس کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد(اے این این )سابق صدر مشرف نے کہا ہے کہ میں نے 3نومبر کی ایمرجنسی اس وقت کے  وزیراعظم شوکت عزیز کی ایڈوائس پر لگائی تھی ، یہ اقدام سول اور فوجی حکام کے مشورے سے کیا تھا۔ اپنے وکلاء کے ذریعے بیان میں مشرف نے کہا کہ ان کے وکیل ابراہیم ستی نے ایمرجنسی کے نفاذ پر جو موقف اختیار کیا انہوںنے اس کی ہدایات نہیں دی تھیں۔ سچ یہ ہے کہ تین نومبر کو ایمرجنسی اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کی ایڈوائس پر لگائی گئی اور ایمرجنسی کانفاذ حکم نامے میں سول اور فوجی حکام کے مشورے سے کیا گیا ۔انہوں نے کہاکہ ایمرجنسی کی قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے توثیق کی تھی۔ انہوں نے کہاکہ ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق وکیل کاعدالت میں بیان میرے لئے حیران کن ہے، قصوری اور رانا اعجاز سمیت کسی وکیل کو نہیں ہٹایا، اپنی وکلاء ٹیم پر مکمل اعتماد ہے۔

ای پیپر-دی نیشن