• news

جبری گمشدگی میں ملوث فوجی افسروں کیخلاف کورٹ مارشل کی رپورٹ طلب‘ لاپتہ کرنیوالے عناصر کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی کیس میں وزارت دفاع سے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی گمشدگی میں ملوث آرمی افسروں کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی تمامتر تفصیلات جبکہ خضدار میں اجتماعی قبروں سے ملنے والی نعشوں کی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ 6 مئی تک حکومت پنجاب کی فرانزک لیبارٹری سے طلب کی ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا ہے کہ نعشوں کے ڈی این اے پر لمبا عرصہ کیوں لگایا جارہا ہے‘ صوبے میں امن و امان کی بحالی ریاست کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے‘ آئے روز ہونے والے واقعات تشویشناک ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کرسکتے‘ بلوچستان میں بدامنی نہیں دیکھ سکتے‘ لاپتہ افراد کیس میں ملوث عناصر کو بھی قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔ سمجھ سے بالاتر ہے اتنی تاخیر کیوں کی جارہی ہے، اس کے پیچھے کہیں اور محرکات تو نہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دئیے کہ اجتماعی قبروں سے نعشیں ملنا تشویشناک ہے۔ جب تک اس ملک میں آئین و قانون کی عملداری نہیں ہوگی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بلوچستان جل رہا ہے اور کسی کو پروا بھی نہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں ایف سی کے ہاتھوں لاپتہ افراد کے مقدمات کے حوالے سے حکومت نے ایف سی اور آرمی افسروں کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے کارروائی کی جارہی ہے اس پر عدالت نے کہا کہ اب تک کیا کارروائی کی گئی ہے؟ اس حوالے سے عدالت کو تفصیلات پیش کی جائیں۔ خضدار کی اجتماعی قبروں سے ملنے والی نعشوں بارے رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ڈی این اے پر چار سے پانچ ماہ لگ سکتے ہیں کیونکہ ایک نعش کے ڈی این اے پر سات سے آٹھ ہفتے درکار ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں امن و امان کی بحالی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے تمام اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ ڈاکٹروں کو بھی سکیورٹی فراہم کردی گئی ہے۔ دیگر عام لوگوں کی سکیورٹی کیلئے بھی فول پروف اقدامات کئے گئے ہیں۔ چیک پوسٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آئی ہے۔ بی بی سی اردو کے مطابق سپریم کورٹ نے وزارت دفاع سے ان فوجی افسروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ ما رشل کی کارروائی کی رپورٹ طلب کی ہے جو بلوچستان میں لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنے کے واقعات میں ملوث ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت میں بتایا گیا تھا کہ ایسے واقعات میں ملوث کچھ فوجی افسروں کا پتہ چلا لیا گیا ہے جن کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نعشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی حتمی رپورٹ آنے میں بھی مزید دس سے 12 ہفتے لگ سکتے ہیں تاہم عدالت ان کے مؤقف سے مطمئن نہیں ہوئی۔ عدالت نے فرانزک لیبارٹری کے سینئر افسروں کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے اس مقدمے کی سماعت چھ مئی تک کے لئے ملتوی کردی۔

ای پیپر-دی نیشن