بلوچستان کا مسئلہ اور حقوق
صدر مملکت ممنون حسین نے گذشتہ دنوں بلوچستان کے دورے کے موقع پر کہا کہ ماضی میں کوتاہیوں اور نااہلی کے باعث بلوچستان پسماندگی اور احساس محرومی کا شکار ہو گیا۔ حکومت بلوچستان کو ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔ لڑائی سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ صدر مملکت کی یہ بات درست ہے کہ لڑائی سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی اور ثقافتی حقوق وہاں کے عوام کی مرضی اور خواہشات کے مطابق حل کئے جائیں۔ ہر دور میں بلوچستان کی صورتحال پیچیدہ رہی ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ وہاں پر برپا شورش کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں۔ بلوچستان میں عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات اندرونی ہیں اس لئے ان مسائل کا حل اندرونی سیاسی اقدامات ہی سے ممکن ہے۔ مضبوط وفاقی اکائیاں ایک کامیاب وفاق کی علامت ہوتی ہیں۔ بلوچستان کا مقدمہ ہر کوئی اپنے تئیں لڑتا رہا ہے اور لڑ رہا ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ موجودہ سیاست کی زبان میں حق (Right) کسے کہتے ہیں۔
مجلس اقوام متحدہ (United Nation) نے ہیومن رائٹس کمشن کے نام سے ایک تحقیقاتی بورڈ قائم کیا تھا۔ اس بورڈ نے ساری دنیا کے ارباب فکر و نظر سے مشوہ کے بعد اپنی سفارشات مرتب کیں۔ ان سفارشات کو تمام اقوام عالم کی نمائندہ جماعت U.N نے غور و خوض سے جانچا‘ پرکھا اور پھر چارٹر شائع کیا۔ جیسے ”منشور حقوق انسانیت“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ منشور میں بنیادی حقوق میں یہ شامل ہیں۔ تمام انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں اور احترام و حقوق کے معاملہ میں یکساں ہیں۔ زندگی‘ آزادی اور حفاظت نفس کا حق‘ غلامی کی ممانعت‘ قانون کی نگاہ میں یکساں احترام آدمیت کسی شخص کو بلا قصور گرفتار نہ کیا جائے نہ نظر بند یا جلاوطن کیا جائے۔ تمام الزامات کے سلسلے میں مقدمات کی پبلک سماعت کا حق‘ نقل و حرکت کی آزادی‘ خیالات‘ ضمیر اور مذہب کی آزادی‘ اظہار خیالات کی آزادی‘ شادی کے حقوق‘ حقوق جائیداد وغیرہ کیا کسی بھی حکومت نے ان حقوق کی پاسداری کی۔
بلوچستان میں حقوق کیوں نہیں دیئے جاتے‘ ناراض افراد سے مذاکرات کیوں نہیں کئے جاتے۔27 دسمبر 2007ءکو راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ آصف علی زرداری نے ”پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر انتقام کی آگ کو بھڑکنے نہ دیا۔ عام انتخابات میں جیت کر مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بنوائیں۔ 80 فیصد ووٹ لیکر منسد صدارت پر متمکن ہوئے۔ انہوں نے بلوچستان کے سلگتے مسائل پر بھرپور توجہ دی۔ بلوچستان پیکج دیا۔
مرکز کے درمیان نہ صرف نئے رشتے استوار کئے بلکہ صوبوں کے درمیان آپسی ہم آہنگی کو فروغ بھی دیا۔ اٹھارہویں ترمیم منظور کراکے صوبائی خود مختاری کی راہیں استوار کیں۔ حالات جوں کے توں کیوں ہیں۔
جنرل ضیاءالحق کی مارشل لاءحکومت نے نیب کے لیڈروں پر بغاوت کے الزامات واپس لے کر حیدر آباد ٹریبونل کو توڑ دیا تو مزاحمت بھی بکھر گئی اور ٹھنڈی پڑ گئی لیکن 2002ءکے انتخابات نے اس محرومی کو اس قدر برافروختہ کیا کہ 2004ءکو پھر سے ایک فوجی کارروائی شروع ہوئی جس میں نواب اکبر خان بگٹی کواس وقت کے صدر اور سربراہ فوج جنرل پرویز مشرف نے ساتھیوں سمیت 26 اگست 2006 ءکو پہاڑوں میں راکٹ مار کر شہید کر دیا۔ دس دن تک ان کی لاشوں کو بے گورو کفن چھوڑ دیا۔ بہانہ تھا کہ ملبہ میں دبے ہوئے تھے۔ پھر میر بالاچ مری کو پراسرار حالات میں شہید کرکے اسکی لاش کو نامعلوم مقام پر دفنا دیا گیا۔
اب وقت آگیا ہے کہ بلوچوں کا احساس محرومی ختم کیا جائے۔ سیاسی عمل کو آگے بڑھا کر مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے۔