سیاست، سیاسی کارکن اور نسرین نواز
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں جہاں جہاں سیاسی جماعتیں ہیں جمہوریت ہے اور انتخابات کے ذریعے اقتدار آتا جاتا ہے وہاں سیاسی کارکن زیر بحث رہتے ہیں۔ وفا دار کارکن، بے وفا کارکن، محنتی اور نظریاتی کارکن اور فصلی بیڑے کارکن غرض ہر جماعت میں ہر طرح کے کارکن موجود ہوتے ہیں مگر یہ صرف وفا دار اور نظریاتی کارکن ہی ہوتے ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں اور انہی کے ذریعے سیاسی قیادت اپنے منشور، پروگرام اور عملی خدمات کا پیغام عام لوگوں تک پہنچا کر اقتدار میں آتی ہے۔ مسلم لےگ ن کو اقتدار کی ہیٹ ٹرک کا اعزاز ملا ہے تو اسکے پس منظر میں ن لےگ کے ان سیاسی ورکروں کا بڑا کردار ہے جنہوں نے 1999ءسے لے کر اب تک پارٹی کیلئے گلی گلی نعرے بلند کئے جلسوں اور جلوسوں کو کامیاب بنایا۔ ماریں کھائیں اور پارٹی کی قیادت کے ساتھ وفاداری کے ساتھ جڑے رہے۔ مسلم لےگ ن کی قیادت یعنی میاں نواز شرےف اور شہباز شرےف نے کوشش کی کہ اس بار سیاسی ورکروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو بھی آگے آنے کا موقع ملے اور اس کی مختلف مثالوں میں ایک مثال وفا دار سیاسی کارکن مسلم لےگ ن خواتین ونگ کی لاہور کی صدر نسرین نواز کی ہے جو اس وقت صوبائی اسمبلی کی رکن ہیں بیگم نسرین اور ان کے شوہر نامدار امیر نواز جاوید ایک مدت سے پارٹی سے وابستہ ہیں۔ لاہور میں نسرین نواز کا اپنا گھر تو مسلم لیگی مورچہ تھا ہی انہوں نے بیگم زکیہ شاہ نواز کی ٹیم کا حصہ بن کر بیگم کلثوم نواز کی ہدایات کی روشنی میں لاہور کے طول و عرض میں خواتین کی صفوں میں کام شروع کیا تحریک نجات سے تحریک بحالی عدلیہ تک اور انتخابی جنگ کے ہر مورچہ پر انہیں پہلی صف میں دیکھا گیا۔ پاکستان میں سیاسی کارکنوں کی اہمیت کے حوالے سے ایک نشست میں انکی آواز میں بھرپور اعتماد تھا۔ وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کی کارکردگی پر مطمئن تھیں اور ذکر کر رہی تھیں ان دنوں کا جب اعلیٰ قیادت کی ہدایات کی روشنی میں ظفر علی روڈ پر بیگم زکیہ شاہ نواز کا گھر سیاسی تربیت گاہ بنا ہوا تھا کبھی مسلم لےگ ہاﺅس میں غلام حیدر وائیں کے سامنے جدوجہد کے خاکے بنائے جاتے۔ کبھی تہمینہ درانی کے ساتھ شہراہ قائد اعظم پر حملہ آور پولیس کا سامنا ہوتا۔ زبیدہ بھٹی، راحت افزا، تنویر چودھری، رخسانہ کوثر، نسیم بانو اور ایسی مقتدر جانثار ورکروں نے کتنا بھرپور کردار ادا کیا۔ بیگم نسرین نواز کا رول منفرد تھا۔ دارے، درمے، قدمے، سخنے وہ محترک رہیں۔ نشست میں پی پی پی کی نمائندگی کرنیوالے اعجاز بابا تو چپ چاپ تھے شاید وہ اپنی پارٹی کے رویے سے شاکی تھی۔ پی ٹی آئی کے نواز خلجی نے البتہ یہ اہم بات کی کہ پارٹیاں وہی زندہ رہتی ہیں جن کے کارکن زندہ رہتے ہیں بیگم نسرین نواز کہ پر اعتماد لہجے پر میں نے پوچھا کہ آپ رکن اسمبلی بننے کے بعد عوام کیلئے کس مورچہ پر ہیں۔ میں نے اس لئے یہ سوال کیا کہ گزشتہ اسمبلی میں وہ رکن نہیں تھیں۔ اسکے باوجود تعلیم کے میدان میں ان کو اہم ذمہ داری دی گئی تھی اور انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان کا جواب تھا کہ ابھی تک ان کو کوئی ذمہ داری نہیں ملی۔ یہ تو پارٹی قیادت کا کام ہے کہ کس کو کیا ذمہ داری دینی ہے ہم جیسے سیاسی کارکنوں کا کام اپنی قیادت پالیسی کے تحت اس کا پیغام عوام تک پہنچانا ہے اور عوام کے مسائل حل کر کے پارٹی کیلئے عوام کا دل جیتنا ہوتا ہے ۔ اس نشست میں انکے پہلو میں نواز شرےف لورز گروپ کے عہدیداروں پنجاب کی صدر ڈاکٹر بیگم شفقت امین اور لاہور کے جنرل سیکرٹری میاں طارق کی موجودگی سے اندازہ ہوا کہ لاہور کے میاں نواز شرےف اور میاں شہباز شرےف کا سیاسی قلعہ بنانے میں کیسے کیسے سیاسی کارکن کن کن صورتوں میں اب بھی میدان میں ہیں۔ ان میں نسرین نواز جیسے کارکن صوبائی اسمبلی کے رکن بھی بنائے گئے ہیں اور مسلم لےگ ن کے ایسے فیصلے اچھے ہیں مگر اس سے ہم بات یہ ہے کہ ان کو عملی طور پر ذمہ داریاں بھی دی جائیں۔ تاکہ وہ حکومت کے کل پرزے بن کر اپنی صلاحیتیں پارٹی کے لئے استعمال کر سکیں۔