• news

تحفظ پاکستان بل کے مضمرات

دنیا کے کسی خطے میں کیا مثبت یا منفی نتائج نکلے اس کا جائزہ پس پشت ڈال کر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ قیام پاکستان سے تادم تحریر اس ملک میں کوئی فوجی آپریشن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا ہے پاکستان میں 65 سال کے دوران ایک درجن سے زائد آپریشن ہوئے بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشن جس کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے حقیقی امن کی بنیاد نہ بن سکا۔ آج بھی دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی تحریکوں کو بے عمل نہیں کیا جا سکا ہے۔ فوجی آپریشن کے حوالے سے سوات آپریشن کا بہت چرچا کیا جاتا ہے کہ وہاں حقیقی امن قائم کر دیا گیا ہے مگر سوال ہے کہ اگر اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا تو پھر انتظام پولیس کے ہاتھ میں کیوں نہیں فوج کی موجودگی کا کیا جواز ہے۔ بلوچستان کی طرح کراچی میں بھی آپریشن جاری ہے مگر صورتحال قابو میں نہیں آ رہی۔ اب کہا جا رہا ہے تحفظ پاکستان آرڈنینس ایک ایسی گیڈر سنگھی ہے جس کے پاس ہوتے ہی دہشت گردی کو کہیں ملک میں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اس آرڈیننس کے تحت کسی بھی شخص کو عدالت میں پیش کئے بغیر نوے دن تک زیر حراست رکھا جا سکے گا جب کہ موجودہ قانون کے تحت کسی بھی شخص یا ملزم کو عدالت میں پیش کر کے بار بار ریمانڈ لے کر 90 روز سے زیادہ زیر حراست یا زیر تفتیش رکھا جا سکتا ہے اپوزیشن جماعتیں اس کی بھرپور مخالفت کر رہی ہیں۔ حکومت کے اصرار اور اپوزیشن کے انکار نے عوام کو ذہنی الجھاﺅ کا شکار کر رکھا ہے۔ لاہور کے علاقے مناواں کے ڈاکٹر جاوید اقبال جنہیں اےف بی آئی کے اہلکاروں نے گھر سے اٹھایا اور ایک مدت حراست میں رکھا اور رہائی کے بعد جب وہ اپنے کلینک میں مریضوں کے مفت علاج میں مصروف تھے نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے خود ان کے بقول ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ملا عمر کے کہنے پر کابل میں میڈیکل کالج قائم کر رہے تھے جس میں طالبات کا بالکل الگ شعبہ تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے اگر طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے تو اس میڈیکل کالج میں خواتین کے شعبہ میں ایم بی بی ایس کرنے والی طالبات کیا پڑوسی ملکوں سے منگواتے اور کیا ان کی عقل گھاس چرنے گئی تھی کہ وہ اپنا سرمایہ لگا کر پڑوسی ملکوں کی طالبات کے لئے میڈیکل کی تعلیم کا بندوبست کرتے۔ یہ دراصل دین بیزار لوگوں کا پروپیگنڈہ ہے۔ اصولی طور پر تو اسلام کے نام پر قائم اس ملک میں فوراً بعد ہی اسلام نظام قائم ہو جانا چاہئےے تھا جب کہ بانی پاکستان قائد اعظم نے سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق نظام اپنانے کا اعلان کیا اور ملک کے تمام اداروں میں اسلامائزیشن کے لئے باقاعدہ ادارے قائم کر دیئے تھے علامہ اسد کو جن کا نگران مقرر کیا گیا تھا اگر فرمودات قائد کو عملی شکل دے دی جاتی تو کسی کو ہمیں یہ بھولا ہوا سبق یاد کرانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔

ای پیپر-دی نیشن