بک شیلف......... خودمختاری کیسے؟
یوسف حسین شیرازی پاکستان کے ایک اہم سرمایہ کار اور صنعتکار ہیں اوراقتصادی ماہر کے طور پر بھی اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ ملکی و عالمی سطح پر اقتصادی صورتحال میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں اور اسکے جو اثرات دنیا بھر میں اور ہماری معیشت پر پڑ رہے ہیں اس کا جس گہرائی سے انہوں نے اپنی کتاب ”خود مختاری کیسے؟“ میں تجزیہ کیا ہے۔ وہ صرف پڑھنے کیلئے ہی نہیں بہت کچھ سمجھنے اور سمجھانے کیلئے بھی ہے۔ ملکی معیشت پر اس وقت بیرون قرضوں کی شکل میں جو دباﺅ ہے اس کو کرپشن اور بدنظمی نے ایک ناقابل علاج درد بنا دیا ہے اور اسی درد کا علاج یوسف حسین شیرازی نہایت مہارت اور جدید معلومات و وسائل کے ذریعہ کرتے ہیں اور ملکی معیشت کی بہتری کیلئے دوائیں بھی تجویز کرتے ہیں۔ کتاب کے مطالعہ سے ہمیں گلوبلائزیشن، آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، ورلڈ بنک اور فری ٹریڈ کے حوالے سے عالمی ماہرین کے خدشات اور اسکے ملکی معیشت پر پڑنے والے اثرات کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ امتیازی سلوک کا بھی پتہ چلتا ہے اور اس سے پیدا ہونیوالے اختلافات کا بھی جس سے خطرہ کہ سرد جنگ کاجہنم ایک بار پھر نہ بھڑک اٹھے اور دنیا میں تقسیم اور تباہی کا بازار پھر گرم ہو۔کتاب میں یوسف حسین شیرازی نے جس دلسوزی سے پاکستانی معیشت کا نقشہ کھینچا ہے اور اس کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اقدامات بیان کئے ہیں وہ سب اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہمارے حکمران ان پر توجہ دیں کیونکہ مصنف کے بقول اور ہم سب جانتے بھی ہیں کہ ہماری معیشت کا بڑا دارومدار بیرونی قرضوں پر ہے اور نائن الیون کے بعد جہاں عالمی معیشت تنزل کا شکار ہوئی۔ وہاں پاکستانی معیشت کو بہتری کا راستہ ملا ہمارا 2 بلین ڈالر کا قرضہ معاف ہوا باقی واجب الادا قرضہ کو آسان شرائط سے منسلک کیا گیا۔ تاہم یہاں مصنف نے امریکہ افغان تنازعہ کے اس دور میں ہمارے ملک پر پڑنے والے اثرات پر بحث نہیں کی جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں سیاسی و معاشی ابتری پیدا ہوئی اور آج تک ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اس لحاظ سے کتاب صرف معاشی پہلوﺅں کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ یوسف حسین شیرازی کا تجزیہ ہے کہ ملک میں میکرو اکنامکس کی بجائے مائیکرو اکنامکس پر یعنی معاشی ترقی پر زیادہ توجہ دی جانی ضروری ہے تاکہ ملکی معیشت بہتر ہو، ملک ترقی کرے اور عوام میں خوشحالی آئے مگر اس کیلئے شرط یہ ہے کہ ٹیکس کا نظام بہتر بنانا اور اسکا دائرہ کار وسیع کرنا ہوگا اور ٹیکس چوری کی لعنت ختم کرنا ہوگا اس وقت ملک کو صرف سیاسی اور معاشی استحکام سے ہی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لے جایاجاسکتا ہے۔(تبصرہ .... جی این بھٹ)