10 روز میں تنخواہیں بقایاجات دینے کا حکم‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہماری بیٹیاں ہیں، امتیازی سلوک برداشت نہیں : جسٹس جواد
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ آن لائن) سپریم کورٹ میں ’لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے اور تنخواہوں کی ادائیگی سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر عدم عملدرآمد پر ذمہ داروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لئے دائر درخواست کی سماعت میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور فاٹا کو 10روز کے اندر اندر لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں اور بقایا جات بذیعہ چیک ادائیگی کی ہدایت کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے تنخواہوں کے طریقہ کار اور ملازمین کو مستقل کرنے کے حوالے سے مشترکہ جامع رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ کیس کی مزید سماعت مئی کے تیسرے ہفتہ تک ملتوی کر دی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہماری بیٹیاں اور بہنیں ہیں، ان سے زلزلہ میں امدادی کام، چائلڈ کیئر پروگرام، ڈینگی مہم، پولیو کے قطرے پلانے اور الیکشن تک کی ڈیوٹیاں لی جاتی ہیں اور تنخواہیں ادا نہیں کرتے۔ انہیں تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ عدالت کو قبول نہیں، ہمیں قوم کی ان بچیوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے، امتیازی سلوک برداشت نہیں عدالت ذمہ دار افسروں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دے سکتی ہے، اگر عدالت کا حکم نہ مانا گیا تو ذمہ داروں کو اس کا نتیجہ بھگتنا پڑ ے گا۔ عدالت نے بلوچستان کی جانب سے عدم عمل درآمد پر شدید اظہار برہمی کیا۔ سندھ کا نمائندہ موجود نہ ہونے پر جسٹس جواد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کہیں گئے ہوئے ہیں تو کسی نہ کسی لاء افسر کو تو صوبہ سندھ کی نمائندگی کے لئے عدالت میں موجود ہونا چاہئے تھا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ہیلتھ بلوچستان کو جاری توہین عدالت کے نوٹسز کے حوالہ سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے ان کی حاضری سے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ چیف سیکرٹری بیرون ملک گئے ہوئے ہیں جبکہ سیکرٹری ہیلتھ کا تبادلہ ہو چکا ہے، جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ تبادلہ کے باوجود انہیںعدالت میں پیش ہونا چاہئے تھا، دوران سماعت فرید ڈوگر نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مستقلی کے حوالے سے عدالت میں رپورٹ پیش کی، جس میں بیان کیا گیا تھا کہ صوبائی حکومت نے سات ہزار دو سو سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے کی قانون سازی پر کام شروع کردیا ہے اور صوبائی اسمبلی کے آئندہ سیشن میں اس حوالے سے قانون سازی کرلی جائے گی، فرید ڈوگر نے عدالت کی جانب سے پچھلی سماعت کے دوران صوبائی حکومت کو جرمانہ کئے جانے کی رقم کا چیک عدالت میں ہی درخواست گزار بشریٰ آرائیں کے حوالے کیا، جسٹس جواد اسی خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ عدالت کی منشا کے مطابق تو حل نہیں کیا گیا تاہم اسے چلنے دیا جائے، بشریٰ آرائیں نے بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پچھلے 6ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔ اسلام آباد اور فاٹا میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو چیک کی بجائے نقد ادائیگی کی جاتی ہے جس میں سے متعلقہ کلرک فی تنخواہ سوپچاس روپے بطور نذرانہ کاٹ لیتے ہیں۔