میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
اخبارات میں سیاسی موضوعات پر بہت کالم لکھے جاتے ہیں۔ مرشد صحافت میرے چیف ایڈیٹر مجیدنظامی بھی کبھی کبھی مجھے کہتے ہیں کہ سیاسی موضوعات پر زیادہ لکھا کرو۔ میں لکھتا ہوں مگر غیرسیاسی صورتحال بھی میرے اردگرد بہت ہے۔ علمی و ادبی فضا بھی ہے جبکہ اس کا برا حال ہے۔ سیاسی معاملات کا اس سے بھی برا حال ہے۔
اب اس مادرعلمی کا ماحول تخلیقی ہوتا جا رہا ہے وہاں ایک محفل میں دلیر اور دانشور وائس چانسلر نے ایک بہت بڑے شاعر مجید امجد کی شاعری سنائی۔ وہ فزکس کے آدمی ہیں اور میٹا فزکس کے آدمی لگتے ہیں۔ اتنی نظمیں تو ہمارے شاعروں، ادیبوں کو نہیں آتیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں استاد محترم المقام ڈاکٹر محمد خواجہ محمد زکریا موجود ہیں۔ وہ مجید امجد کے عاشق ہیں۔ اس فقیر شاعر پر جتنا تحقیقی کام انہوں نے کیا ہے وہ ایک ریکارڈ ہے۔ انہیںبھی مجید امجد زبانی یاد ہے۔ خواجہ صاحب نے پنجاب یونیورسٹی میں اردو ادب کی تاریخ مرتب کی ہے، پانچ جلدیں شائع ہو چکی ہیں چھٹی تیار ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے انہیں کہا ہے کہ وہ اتنی ضخیم اور عظیم تحقیق کی تلخیص لکھیں۔ ان کتابوں کی مقبولیت سے جتنا فائدہ بھی اردو شاعری کی تخلیقی عظمت سے دلوں تک منتقل ہو سکتا ہے، ہو جائے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے بھی اردو ادب کی مختصر ترین تلخیص لکھی۔ ہر نئے ایڈیشن کو ڈاکٹر سلیم اختر مختصر کر دیتے ہیں، نجانے کیسے کر لیتے ہیں۔ ایک دوست کو میں جانتا ہوں وہ اس کتاب کا ہر نیا ایڈیشن خریدتا ہے۔
ڈاکٹر خواجہ زکریا کی بھی اس تحقیق اور تاریخ کا یہی حال ہو گا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران، خواجہ صاحب کے بہت معترف ہیں۔ کئی محفلوں میں اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ ایسے لوگ یونیورسٹیوں میں ہونا چاہئیں ورنہ اب تعلیمی اداروں میں بھی سیاست کا دور ہے اور زور شور میں علمی کام نہیں ہو رہا ہے صرف سیاست ہو رہی ہے مگر میں آج پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے بھی سیاسی کالم لکھنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔
پچھلے دنوں ڈاکٹر مجاہد کامران اور ڈاکٹر خواجہ زکریا نے مجید امجد سیمینار کرانے کا پروگرام بنایا۔ اس کیلئے ذمہ داری صدر شعبہ اردو ڈاکٹر کامران کو دی گئی۔ انہوں نے ایک روزہ پروگرام مرتب کیا اور دوسرے روز مشاعرہ رکھ لیا جبکہ اس سیمینار کے حوالے سے یہ غیرضروری تھا۔ مینجمنٹ میں کچھ کوتاہیاں تھیں مگر حاضری اور مقالات کے حوالے سے یہ پروگرام خاصا کامیاب تھا۔ کئی قابل ذکر اور مجید امجد سے پیار کرنے والے لوگوں کو اطلاع ہی نہ ہوئی۔ مجید امجد جیسے شاعر بے بدل کی عمر ساہیوال میں گزر گئی اور وہاں سے ایک آدمی بھی نہ تھا۔
یونیورسٹی اورینٹل کالج کے ایک درویش دانشور بے نیاز اور بے خواہش شخص قاضی حبیب الرحمن بھی نظر نہ آئے جو گولڈ میڈلسٹ تھے اور سیدھے ساہیوال چلے گئے اور ساری عمر ساہیوال کالج میں گزار دی۔ وہ ہمارے زمانے میں تھے۔ اُن سے مل کر زندگی کوئی اور زندگی لگنے لگتی تھی۔ شاعر بیوروکریٹ جاوید قریشی کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے مجید امجد کی وفات کے بعد حالات کو اپنے قابو میں رکھا اور اُن کا سارا تخلیقی کام بنک لاکر میں رکھوا دیا جس سے بحفاظت وہ شاعری کے سچے عاشقوں تک پہنچ گیا۔ جاوید قریشی لاہور میں ہیں اور اتنے بڑے پروگرام میں نہ آسکے۔اب یونیورسٹیوں میں مجید امجد پر بہت کام ہوا جس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تھیسز بھی ہیں۔
ساہیوال کے ذکر سے منیر نیازی یاد آتا ہے۔ اس شہر نے یہ دو بڑے شاعر سنبھالے رکھے منیر خان بعد میں لاہور آ گئے مگر ساہیوال کی یاد سے غافل نہیں ہوئے۔ ساہیوال کو تخلیقی اعتبار سے جنت کا ٹکڑا کہنے کے بعد میر صاحب نے منیر نیازی کا یہ جملہ تحریر کیا ہے۔ ”دیکھو اس شہر میں آکے میں سب کچھ بھول گیا ہوں“ یہی بھولا ہوا منظرنامہ جب حیرتوں کی فضا¶ں میں منیرنیازی کی شاعری میں جگمگاتا ہے تو مجھے وہ اردو شاعری کا سب سے انوکھا شاعر لگتا ہے۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کلیات مجید امجد مرتب کی ہے۔ یہ ایسی لازوال کتاب ہے کہ زوال آشنا نسلوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ مجید امجد سیمینار میں کلیدی مقالہ خواجہ صاحب کا تھا۔ بہت طویل اور بہت دلچسپ تھا۔ لوگوں نے دل سے سنا اور انجوائے بھی کیا۔ خواجہ صاحب کو اللہ نے ایک ایسے استاد کا دل دیا ہے جو اپنے طالب علموں کے دلوں میں رہتے ہیں۔
اس افتتاحی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر مجاہد کامران کر رہے تھے۔ ابھی خواجہ صاحب نے آٹھ دس صفحے پڑھے تھے کہ وائس چانسلر کا فون آ گیا۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ میں اپنا مقالہ پھر پڑھوں گا، آپ کچھ نہ کچھ کہیں۔ خواجہ صاحب نے بات وہیں سے شروع کی جہاں سے چھوڑی تھی۔ وہ اگر ابتدا سے مقالہ پڑھتے تو لوگ پھر بھی سنتے۔ اس زمانے میں مجید امجد کے لئے اتنی تخلیقی اور تحقیقی نسبت والا کوئی اور شخص نہیں ہے۔
ڈاکٹر مجاہد کامران نے مجید امجد کی اتنی نظمیں سنائیں کہ محفل کا نظم و ضبط کسی اور طرح مضبوط ہو کر قائم ہو گیا۔ ان کے جانے کے بعد بھی تاثر قائم رہا اور محفل کو خواجہ صاحب نے اپنے ہاتھ سے نکلنے نہ دیا۔ بہاولپور سے پروفیسر شفیق صاحب نہ تھے۔ نجانے خیرپور یونیورسٹی سے یوسف خشک کو کیوں بلا لیا گیا تھا۔ اُن کا تخلص یا نام واقعی بامعنی ہے۔ بچگانہ مضمون انہوں نے پڑھا مگر بچوں والا بھولپن نہ تھا۔ ایک بھولپن کا بانکپن بھی ہوتا ہے جو مجید امجد کی شاعری میں ہے۔ اتنا تو ہے کہ اب مجید امجد کا ذکر ہونے لگا ہے۔ وہ بہاروں کا سوگ منانے والا شاعر تھا۔ اس کی زندگی خزا¶ں کی دھوپ چھا¶ں میں گزر گئی۔ ساہیوال کے ایک حجرے میں پوری کائنات کو اس نے اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا۔ سچ ہے کہ جو کچھ انسان کے اندر ہے باہر نہیں ہے۔ جو نامعلوم ہے وہ معلوم سے بہت زیادہ ہے۔ ان دیکھااتنا ہے کہ دیکھا ہوا اس کے مقابلے میں ہیج لگتا ہے۔ مجید امجد کی شاعری اس بات کی گواہی ہے کہ لفظوں اور خیالوں میں تنہائیوں اور خاموشیوں میں جوجہان ہے وہ جہان دیگر لگتے ہیں اور ہم سرسری اس جہان سے گزرتے ہیں۔ مجید امجد کی آخری زندگی فاقہ کشی میں گزری۔ یہی اصل جفاکشی ہے۔ وہ انتہائی دیانت دار اور خوددار تھے۔ اپنے گھر نما احاطے میں مردہ پائے گئے۔ اُن سے زندہ کوئی شخص تھا جن کے ہاتھوں میں زندگی شرمندگی اور درندگی بن گئی ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ کفن کی جیبیں نہیں ہوتیں۔ جیبیں تو اہرام کی بھی نہیں ہوتیں جس کے بعد لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم سیدھے جنت میںجائیں گے اور حج کے بعد جو کچھ وہ کرتے ہیں، کیا موت کے بعد بھی یہی کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مجید امجد نے کہا
میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب اِدھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
وہ آکے دیکھتے تو سہی کہ ہم اُس کی راہ میں کھڑے ہیں۔ اُن کے لوح مزار پر اُن کا شعر کندہ ہے مگر قبر اُن کے دل کی طرح آباد نہیں ہے۔ اس حوالے سے کون سوچے گا۔
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
میری لحد پہ کھلیں جادواں گلاب کے پھول