جو قوم خود کشی پر تل جائے
تاریخ میں جن قوموں نے خود کشیاں کیں اگرچہ ان کی تعداد تھوڑی ہے لیکن ان کی کہانیاں دلدوز ضرور ہیں۔ دور حاضر کا ملک پاکستان ہے جس کے بعض حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں نے اسے ایک بار مقتل کی سیر کرائی ہے ایسی خوفناک قتل گاہیں دکھائی ہیں جہاں لاکھوں مسلمان خانہ جنگی میں مارے گئے پھر بھارتی فوجوں نے آکر کام تمام کر دیا…
دس سال کا مارشل لاء عوام کی احساس محرومی‘ نوکر شاہی کے آمرانہ پھندے نے قومی گردن کو ایسا جھٹکا دیا کہ عوام الناس میں وطن دوستی اور حب الوطنی کے تمام بند ٹوٹ گئے۔ سقوط ڈھاکہ پاکستانی لیڈروں کا پہلا اقدام خود کشی تھا۔ ان نااندیش لیڈروں کا انجام کیا ہوا؟ قدرت کاملہ نے انہیں بھی اوروں کی طرح آئندہ نسلوں کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا۔
قرآن میں ذکر ہے ’’کیسے کیسے جبار اور قہار‘ اہل ثروت‘ اہل حشمت تھے جنہیں اپنی طاقت اور مال و متاع کا بھروسہ تھا لیکن ان کی بربادی کو نہ دولت روک سکی نہ طاقت (المومنون 65-)
کشمیر کھو کر پاکستانی دریاؤں کو دشمنوں کے ہاتھوں صرف 100 کروڑ روپوں میں بیچ دیا۔ اس کی خبر نہ کابینہ کو ہوئی نہ پارلیمنٹ سے اجازت لی گئی اس قومی جرم کو صیغہ راز میں رکھا گیا۔ محکمہ انہار کے افسروں کو حکم دیا گیا کہ جو کوئی سندھ طاس معاہدہ کا عوام میں ذکر کرتا ہوا سنا گیا اسے ملازمت سے فارغ کر دیا جائیگا۔ بھارت نے آئندہ سالوں میں راوی، ستلج‘ بیاس کا پورا پانی روک لیا اور جہلم چناب پر بیراج بنا دیئے یا ٹنلوں کے ذریعے پانی کا رخ موڑ کر پاکستانی دریاؤں کو گندے نالے بنا دیا۔
ویسے تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے رشتہ دار جنرل حبیب اللہ کوکہا تھا کہ ’’میرا ضمیر میری دو غلطیوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا (1) مجیب الرحمن کو قید سے رہائی (2) جنرل یحییٰ خاں کو اقتدار سونپ دینا۔ ایوب خاں اپنی تیسری غلطی دریاؤں کی بھارت کے پاس سودے بازی بھول گئے ایوب خاں کے یہ تینوں فیصلے وطن دشمنی اور آئین شکنی کے آئینہ دار تھے… ڈکٹیٹر کے یہ سنگین فیصلے ملکی سلامتی کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے۔
خیال تھا کہ ایوب شاہی اور سقوط ڈھاکہ کے بعد ملکی حالات سدھر جائیں گے لیکن مارشل لاؤں کا سلسلہ نہ رک سکا اور جمہوری حکمرانوں نے بھی دریاؤں کے پانیوں میں متواتر کمی پر کوئی دھیان نہ دیا۔ بھارت ہے کہ چناب‘ جہلم اور نیلم دریاؤں پر براجوں پر براج بنائے جا رہا ہے بعض جگہ پانیوں کا رخ موڑ رہا ہے۔ دریائے سندھ کا پانی ٹنلوں کے ذریعے ڈائیورٹ ہو رہا ہے۔ عالمی عدالتوں میں حکومت پاکستان بھارتی آبی جارحیت کا مقدمہ موثر طریقے سے پیش نہیں کر سکی۔ جنہیں یہ کیس لڑنے کیلئے بھیجا سنا ہے وہ جا کر عیش و عشرت میں پڑ گئے۔ادھر کالا باغ ڈیم جو پاکستانیوں کے لئے پانی و بجلی کی کمی کو کسی حد تک پورا کرنے کی امید تھی اسکی فوجی اور جمہوری حکومتیں تعمیر نہ کروا سکیں۔ پاکستانی حکمران یہ جانتے ہوئے کہ کالا باغ ڈیم ملکی سلامتی کیلئے انتہائی اہم ہے۔ اس کے نہ بننے سے قحط سالی کے علاوہ صنعت کا پہیہ جام اور ملک معاشی بدحالی کا شکار ہوا ہے پھر بھی خاموش تماشائی بنے ہیں۔
خبر یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر بھارتی نواز سیاسی پارٹیوں نے روکی ہوئی ہے ان پارٹی لیڈروں کو بھارت اربوں روپے دان کر رہا ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے کالا باغ ڈیم سکیم کو اس لئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا کہ وہ اتحادی پارٹی اے این پی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اب ن لیگ نے بھی کالا باغ ڈیم کے مسئلہ پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ ادھر دریاؤں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے تھر اور چولستان میں قحط پھوٹ پڑا ہے جہاں اموات ہوئی ہیں اور پنجاب کی زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ حکومتی سیاسی پارٹیاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر روک کر پاکستانیوں کو اجتماعی خودکشی کی طرف کیوں راغب کر رہی ہیں اس کا جواب تو پارٹی لیڈر ہی دے سکتے ہیں۔
سیاسی لیڈر جانتے ہیں کہ 1947ء میں راوی ستلج اور بیاس کے منابع بھارت کے حصہ میں آئے۔ قائداعظم نے حکم دیا کہ پانی جمع کرنے کیلئے دریائے سندھ پر کالا باغ میں ڈیم بنایا جائے۔ 1953ء میں اس ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی ذوالفقار علی بھٹو دور میں تعمیر جاری رہی۔ اسکے ڈیزائن میں ولی خاں اور مولانا فضل الرحمن کے کہنے پر کچھ تبدیلی بھی کی گئی۔ اس ڈیم کا انفراسٹرکچر مکمل ہو چکا ہے۔ بھٹو پھانسی کے بعد ڈیم کی تعمیر رک گئی اسلئے جنرل ضیاء الحق کے اتحادی ولی خاں نے ڈیم کی مخالفت کر دی۔
آبی ماہر اور واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک لکھتے ہیں ’’1963ء میں ورلڈ بنک کی تحریک پر عالمی شہرت یافتہ آبی ماہرین نے انڈس سپیشل سٹڈی کے نام سے ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی تھی اور اسے ماڈل قرار دے کر کالا باغ ڈیم بنانے کی سفارش کی تھی لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود غلط صوبائی انفارمیشن اور بین الاقوامی سازشوں کی وجہ سے یہ ڈیم نہ بن سکا۔ جس کی پاداش میں ہم زبردست معاشی‘ برقی‘ آبی اور زرعی بحرانوں میں گھر چکے ہیں۔ لوڈشیڈنگ عذاب بن کر آئی اور معاشی طور پر تباہی کنارے پہنچ چکے ہیں۔‘‘
عوام بجلی کے بل 16 روپے فی یونٹ کے حساب سے ادا کرتے ہیں کالا باغ ڈیم بن جائے تو بل ڈیڑھ روپے فی یونٹ ہو جائے۔‘‘
ستمبر 1991ء میں مشترکہ مفادات کونسل نے صوبوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ پانی کے معاہدہ کی افادیت سے صوبوں کی عوام کو آگاہ کریں تاکہ کالا باغ ڈیم بن سکے لیکن اسکے برعکس پارلیمنٹ ممبران کو بھی گمراہ کیا گیا۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ کالا باغ ڈیم کی افادیت اور پانی کے معاہدہ کے حوالے سے وائٹ پیپر شائع کرے۔
آجکل حکمران ڈالروں کی وصولیوں‘ دہشت گردوں سے مذاکرات بم بلاسٹوں کی تحقیقات‘ سول ملٹری بیان بازی اور پارلیمنٹ میں معمول کی حاضری تک مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
تھر میں موت کا رقص جاری ہے امدادی اشیاء میں تقسیم میں بھی گھپلوں کی خبریں آرہی ہیں۔
جنرل اسلم بیگ 28 مارچ کے نوائے وقت میں لکھتے ہیں ’’آج کی اہم خبر ہے کہ دو سو پچاس سے زائد ارب پتی پاکستانی ملک کی لوٹی ہوئی دولت سے امریکہ‘ یورپ اور متحدہ عرب امارات میں قیمتی جائیدادیں خریدنے میں مصروف ہیں۔‘‘