عزت،بے عزتی
لیاقت علی خان نے ڈیفنس سیکرٹری کا عہدہ نواب آف بنگال میر جعفر جسے تاریخ غدار ِ اعظم بھی کہتی ہے کے پڑپوتے میجر جنرل سکندر مرزا کو دیا ۔جنہوں نے چوہدری محمد علی کے دیئے ہوئے سب سے پہلے پاکستان کے آئین کو ہوا میں یوں اڑایا کہ اس آئین کے تحت تین سال میں چار وزراء اعظم بغیر الیکشن کے بدلے گئے اوربعد میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء لگایا۔ بے عزتی کس کی ہوئی ؟ اس عوام کی جنہیں جمہوریت اور برابری کے خواب دکھائے گئے تھے ۔
1949ء میں جب جنرل گریسی کی ملازمت کی مدت ختم ہوئی تو انہوں نے سب سے سینیئر پاکستانی آفیسر میجر جنرل اکبر خان کو کمانڈر ان چیف عہدے کی پیشکش کی ، خان صاحب نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ "میں اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا "۔کاش ایسا فوج کا وقار منظر میں رہتا تو ہمیں 1951میں ایوب خان چیف کی صورت نہ ملتا جس نے 1954 میں ملازمت میں توسیع لی اور 1958 میں اپنے محسن سکندر مرزا کو لندن کا راستہ دکھایا اور پاکستان کا پہلا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربن گیا ۔ اسے پاکستانی فوج اپنی بے عزتی ضرور لکھ سکتی ہے ۔
19اپریل1958کو پاکستان میں امریکی سفیر james Langloyکا واشنگٹن کے سٹیٹ سیکرٹری کو ایک انتہائی خفیہ ٹیلی گرام گیا جس میں بتایا گیا کہ ایوب خان نے کہا ہے " پاکستان مارشل لاء کے لئے بالکل تیار ہے ، الیکشن ہونگے اور اس کے بعد خون خرابہ او ر پھر مارشل لاء ناگزیر ہے"ـ ۔ صدر ایوب کا امریکہ سے مارشل لاء کے لئے ہری جھنڈی لینا زرداری کا حسین حقانی سے مل کر امریکہ کے ذریعے "پاکستان کی نیشنل سیکورٹی بدلنے "سے کم جُرم نہیں ہے ۔ یہاں بے عزتی نہ فوج کی ہوئی نہ سیاسی حکومت کی یہاں پھر سے اس عوام کی بے عزتی ہوئی جن کی جان ،مال اور عزت کی قربانی خود مختار ، غلامی سے پاک ،پاکستان کے لئے لی گئی تھی ۔
ایوب دور میں جب U-2 امریکہ کے جاسوس طیاروں کو اڑنے کے لئے پشاوربڈ بیر بیس دی گئی ،پاکستان اس خام خیالی میں کہ انڈیا کو امریکہ امداد نہیں دے گا مگر 1962میں چین کے خلاف انڈیا کی جنگ میںامریکہ نے انڈیا کی کھل کر مدد کی اور 1965میں پاکستان کو صرف مسکرا کر دکھا دیا تو شائد یہ فوج کی عزت پر سوال تھا ۔
1971 میں جب لیفٹنٹ جنرل یعقوب علی خان نے مشرقی پاکستان میں ظلم کا بازار برپا کرنے کے خلاف استعفیٰ دے دیا ، تو فوج کا وقار بلند ہوا ۔مگر جب ٹکا خان کو وہی کام سونپا گیا اور اس نے معصوم بنگالیوںکو جانوروں کی طرح کاٹا اورپھر انہوں نے بدلے میں بے گناہ مغربی پاکستانیوں کو مارا ۔ جنرل نیازی غریب بنگالی کی جان اور عزت کو فوج کے بوٹوں تلے کچلنے کو بہادری سمجھتے رہے اور جب بھارتی فوج سے پالا پڑا تو جنرل اروڑا کے سامنے جھک کر جو دستخط کئے تو آج تک پاکستانی فوج کا سر اٹھا نظر نہیں آیا۔پاکستان کی حفاظت کرنے کا حلف اٹھا یا تھا ، اس کی حفاظت کیوں نہ کی ؟ ملٹری کی حکومت تھی کسی غدار اور نااہل سیاست دان کی نہیں پھر ملک کیوں ٹوٹا ؟
بریگیڈئیر ایف بی علی کے کہنے پر کرنل علیم آفریدی اور کرنل جاوید اقبال لیفٹنٹ جنرل گل حسن کو ملے اور انہوں نے ائیر مارشل رحیم خان کو ساتھ لیا اور اسی فوج نے یحییٰ خان کو مجبور کیا کہ وہ الیکشن کروائے اور آرمی حکومت سے نکلے ۔یہ تھا فوج کا وقار اور عزت ۔
ضیاالحق صاحب نے امریکہ کی خوشنودی کے لئے پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں دھکیلا جس کے تحفے کلاشنکوف ، مذہبی شدت پسندی ، منشیات اور افغان مہاجرین ہیں ۔ بہاری ،بنگلہ دیش میں بغیر کسی شناخت کے گل سڑ رہے ہیں ، پاکستان کے پاس ان تین ملین مہاجرین کی جگہ نہیں مگر افغانیوں سے ہم نے ملک بھر دیا ۔بے حرمتی ان بہاریوں کی ہے جو 1971 کی لڑائی میں پاک فوج کا ساتھ دینے کے گناہ گار ٹھہرے اور آج تک اس گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔
کارگل پر مشرف نے سول حکومت کے ہوتے ہوئے کیوں خود سے چڑھائی کی ؟اور اگر یہ blame game ہے تو آرمی اس مسئلے پر تحقیق کروائے اور شفاف رپورٹ عوام کے سامنے لائی جائے ۔پچھلے 67 سال دیکھیں تو آدھا وقت آرمی کی حکومت اور آدھا سولیئن مگر دونوں میں رتی برابر کا فرق نہیں ۔ مارشل لاء لگایا گیا یہ کہہ کر کہ سول حکومت کرپٹ ہے اور بعد میں الیکشن کروانے کی بجائے کرسی سے چمٹ کر بیٹھ گئے۔
فوج لاکھ قابل ِ احترام سہی مگر آپ بھی تو منتخب حکومت کی عزت کریں اور وہ بھی پارلیمنٹ میں یا کسی بھی چوک میں کھڑے ہوکر آپ کی بے عزتی نہ کریں ۔ اصل میںبے عزتی تو آپ دونوں کی نہیں ہورہی بے عزتی بلکہ بے حرمتی تو عوام کی ہورہی ہے کبھی روٹی کپڑا مکان ،کبھی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے ، کبھی برا بری کے نعرے اور کبھی اسلامی نظام حکومت کے نعرے اور کبھی "میرے عزیز ہم وطنو ۔۔کی ’’ مسحور کن ‘‘ آواز سے ۔
طالبان کا مسئلہ دونوں کو مل کر حل کرنا چاہیئے ، فوج کو سول حکومت کی اتھارٹی تسلیم کرنی چاہیئے اور فیصلوں سے پہلے اس سے مشاورت کرنی چاہیئے ۔ منتخب وزیر اعظم کو بھی اپنے بڑبولے وزراء کو استعمال کرنے کی بجائے خو د آرمی چیف سے بات کرنی چاہیئے ۔ فوج چکلالہ بیس اور پنڈ ی میں امریکی وزیروں مشیروں کے ساتھ اکیلے کیوں ملے ؟ سیاست دان امریکہ کو خط کیوں لکھے کہ ہماری آرمی سے ہمیں بچائو ۔پنڈی اور اسلام آباد کی ریاستوں کو ختم کر کے ایک پاکستان بنیں اور یہ سمجھ لیں کہ یہ کوئی کبڈی کا میچ نہیں آپ کے ملک کی سالمیت اور ترقی کا مسئلہ ہے ۔
ان دونوں کو ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر ملک و قوم کی بہتری کے لئے فیصلے کرنے چاہئیں ۔ امریکہ کی آشیر باد کے لئے دونوں کو الگ الگ چھلانگیں لگانے کی ضرورت نہیں ورنہ مذاق تو پاکستانی عوام کے ساتھ ہوا جو آج بھی سکندر مرزا یا ایوب خان ،کون امریکہ کی آشیرباد پہلے لے لے والا کھیل دیکھ رہے۔ بے عزتی تو عوام کی ہوئی ،نہ فوج کی ، نہ پارلیمنٹ کی نہ عدلیہ کی ۔ آپ تو عزت دار ،ملک سے رخصت ہوں یا دنیا سے شاہی اعزاز ملتا ہے ۔ سالوں سے بے گھر زندگی اور بے گور موت تو عوام کا نصیب ہے ۔