• news

غداری کیس کے 1956ء سے آغاز کیلئے مشرف کے وکلاء کی استدعا پر خصوصی عدالت کی رولنگ اور مشرف کا اعترافی بیان…نئی تاریخ رقم کرنے کیلئے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے

مشرف غداری کیس کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت کے سربراہ مسٹر جسٹس فیصل عرب نے قرار دیا ہے کہ عدالت کا دائرہ اختیار صرف مشرف کے کیس تک محدود ہے‘ ہم 1956ء سے مقدمات نہیں کھول سکتے۔ فاضل جج نے گزشتہ روز اس کیس کی سماعت کے دوران یہ اعلان بھی کیا کہ اس کیس میں مسٹر محمد اکرم شیخ کے بطور پراسیکیوٹر تقرر کیخلاف دائر درخواست کا 18؍ اپریل کو فیصلہ سنایا جائیگا۔ دوران سماعت مسٹر اکرم شیخ نے فاضل عدالت سے استدعا کی کہ اس کیس کے ملزم مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ 6کے تحت کارروائی کا باقاعدہ آغاز کردیا جائے۔ اس موقع پر جنرل (ر) مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے استدعا کی کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں مشرف کو مشورہ دینے والے لوگوں کو بھی ٹرائل میں شامل کیا جائے کیونکہ صرف ایک شخص کا ٹرائل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 3؍نومبر کی ایمرجنسی کا فرمان گزٹ نوٹیفکیشن ہے اس لئے خصوصی عدالت ایکٹ  کے تحت تمام ملزمان کا اکٹھا ٹرائل ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاضل عدالت 26 مارچ 1956ء سے آئین شکنوں کیخلاف کارروائی کرکے تاریخ رقم کرے۔ انکے بقول 3؍نومبر کے اقدام کیلئے جن لوگوں سے مشاورت کی گئی‘ ان میں اس وقت کے گورنرز‘ وزراء اعلیٰ‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ کورکمانڈرز اور دیگر سٹیک ہولڈرز شامل ہیں اس لئے انکے نام کارروائی کیلئے استغاثہ کو فراہم کئے جائیں۔ یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ان افراد سے مشاورت کی گئی تھی یا نہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مشرف غداری کیس میں ’’فیئرٹرائل‘‘ کے تمام آئینی اور قانونی تقاضے پورے ہونے چاہئیں تاکہ اس کیس کے فیصلہ پر انگلی اٹھانے کی کوئی گنجائش نہ نکل سکے۔ مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے آئین کی دفعہ 6 کی ذیلی دفعات 12,2 کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ان دفعات کی روشنی میں آئین کی دفعہ 6 کا اطلاق 26 مارچ 1956ء سے ہو گا جبکہ بعض قانونی‘ آئینی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ تقاضا بھی کیا جاتا رہا ہے کہ مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کی کارروائی کا آغاز انکے 12؍ اکتوبر 1999ء کے اقدام سے کیا جائے تاہم حکومت کی جانب سے خصوصی عدالت کا جو دائرہ اختیار متعین کیا گیا ہے‘ وہ مشرف کے صرف 3؍نومبر 2007ء والے اقدام پر ان کیخلاف کارروائی تک محدود ہے جس کے تحت انہوں نے بطور آرمی چیف ملک میں ایمرجنسی اور پی سی او کا نفاذ کرکے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرنیوالے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے فاضل ججوں کو گھر بھجوایا اور نظربند کیا تھا۔ جنرل (ر) مشرف نے گزشتہ روز بھی اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 3؍ نومبر کی ایمرجنسی اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کی ایڈوائز پر لگائی تھی جبکہ اس اقدام کیلئے سول اور فوجی حکام سے مشورہ کیا گیا تھا اور قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے ایمرجنسی کی توثیق کی تھی۔ انکے اس بیان کی بنیاد پر ہی انکے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے تمام متعلقہ افراد کا اکٹھے ٹرائل کرنے کا تقاضا کیا ہے تاہم اس کیس کے حوالے سے ایف آئی اے کی انکوائری ٹیم کی مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے جن سول اور فوجی حکام سے مشاورت کا دعویٰ کیا ہے‘ ان میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز سمیت کسی بھی اہم شخصیت نے مشرف کے اس مؤقف کو درست تسلیم نہیں کیا اور مشاورت کے عمل میں اپنی شمولیت کے معاملہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
خصوصی عدالت نے چونکہ اپنے متعینہ دائرہ اختیار کے اندر ہی اس کیس کی سماعت کرنی ہے اس لئے یہ بحث اپنی جگہ کہ مشرف کے 12اکتوبر 1999ء اور 3؍ نومبر 2007ء کے ماورائے آئین اقدامات میں معاونت کرنیوالے تمام افراد کا آئین کی دفعہ 6 کے تحت ٹرائل ہونا چاہیے‘ تاہم عدالت اپنے متعینہ دائرہ اختیار کے اندر ہی محدود رہے گی۔ اگر اس موقع پر عدالت کا دائرہ اختیار پھیلانے کا تقاضا کیا گیا تو اس کیلئے مشرف کے وکلاء کو ازسرنو حکومت سے رجوع کرنا ہوگا جس سے یہ کیس التواء کا شکار ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے مشرف کے وکلاء کی حکمت عملی بھی یہی ہو کہ قانونی موشگافیوں میں الجھا کر اس کیس کو زیادہ سے زیادہ طول دیا جائے اور اسکے فیصلہ کی نوبت نہ آنے دی جائے۔ یہ حکمت عملی اس گیم پلان کا حصہ بھی ہو سکتی ہے جس کے تحت مشرف کیلئے محفوظ راستہ نکلوا کر انہیں ملک سے باہر بھجوانے کی کئی سازشی تھیوریاں اس وقت موضوعِ بحث بنی ہوئی ہیں چنانچہ اس کیس کے تناظر میں پینڈورا بکس کھلنے کے جو امکانات ہو سکتے ہیں‘ انہی کو بھانپ کر وزیراعظم نوازشریف کو انکے قانونی اور سیاسی مشیروں نے اس کیس کو صرف 3؍نومبر 2007ء کے اقدام تک محدود رکھنے کا مشورہ دیا ہو گا جس کی بنیاد پر خصوصی عدالت کی تشکیل کے نوٹیفکیشن میں عدالت کا دائرہ اختیار مشرف کے صرف 3نومبر کے اقدام تک محدود کیا گیا۔
اگر مشرف کے اس اقدام کی بنیاد پر ہی ان کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے تو فیئر ٹرائل کے تقاضوں کے تحت مشرف کے وکلاء کو انکے 3نومبر کے اقدام کے مبینہ معاونین کو بھی مشرف کے ساتھ کٹہرے میں لانے کا تقاضا کرنے کا حق حاصل ہو گا جبکہ اس تقاضے میں عدالت کے دائرہ اختیار کا بھی سوال نہیں اٹھ سکتا کہ یہ تقاضا 3 نومبر کے اقدام کے حوالے سے خصوصی عدالت کے متعینہ دائرہ اختیار ہی کے اندر ہے تاہم یہ تقاضا اسی وقت پورا ہو پائے گا جب مشرف کیخلاف اس کیس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوگا اس لئے مشرف کے وکلاء کی ٹیم کو پہلے اس کیس کی کارروائی کا آغاز تو ہونے دینا چاہیے۔ اس کارروائی کے دوران اگر مشرف یہ استدعا کرینگے کہ اس اقدام میں شامل فلاں فلاں افراد کو بھی طلب کیا جائے تو عدالت انہیں طلب کرنے کے احکام صادر کر سکے گی۔ چنانچہ اب اس کیس میں باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہونا ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم خود فاضل عدالت سے استدعا کر چکے ہیں کہ 26 مارچ 1956ء سے آئین شکنوں کیخلاف کارروائی کرکے تاریخ رقم کی جائے۔ اگر انکی اس استدعا کی بنیاد پر بالفرض محال غداری کیس کا آغاز 1956ء سے ہی کیا جاتا ہے تو بھی مشرف آئین سے غداری کے جرم سے بری الذمہ تو نہیں ہو جائینگے اس لئے قطع نظر اسکے کہ کارروائی کا آغاز کس جرنیلی آمر کے اقدام سے ہونا چاہیے اور کس کس کیخلاف کارروائی کی جانی چاہیے‘ ایک بار اس کیس کا آغاز تو ہونے دیا جائے اور اسکے فیصلہ کی نوبت تو آنے دی جائے‘ بیرسٹر فروغ نسیم کی استدعا کے مطابق اس کیس سے ہی جرنیلی آمروں کیخلاف آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کی تاریخ رقم ہو جائیگی۔ اگر خود مشرف یہ جواز پیش کرکے اپنے 3نومبر 2007ء کے اقدام کا اقرار کر رہے ہیں کہ اس کیلئے انہوں نے فلاں فلاں سے مشاورت کی تھی تو اپنے اس اعترافی بیان کی بنیاد پر ہی ان پر آئین سے غداری کا جرم ثابت ہو جائیگا‘ چاہے انکے مبینہ معاونین بھی کیوں نہ اس جرم کی زد میں آجائیں۔
اگر خدانخواستہ اس کیس کو قانونی موشگافیوں میں الجھا الجھا کر ٹرائل کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی تو خدشہ ہے کہ نئی تاریخ رقم ہونے کے بجائے کہیں پرانی تاریخ ہی نہ دہرا دی جائے۔ چنانچہ دانشمندی کا یہی تقاضا ہے کہ مشرف غداری کیس میں باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہونے دیا جائے اور مشرف ٹیم ہی نہیں‘ استغاثہ کی جانب سے بھی کیس کو لاحاصل بحث مباحثے میں الجھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر ہم نے فی الواقع ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور معاشرے کو انصاف کی عملداری کے تابع کرنا ہے تو مشرف غداری کیس کو بہرصورت منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا ورنہ سازشی تھیوریاں کسی نہ کسی پس منظر میں ہی فروغ پاتی ہیں اس لئے بے شک فیئر ٹرائل پر کوئی کمپرومائز نہ کیا جائے مگر اس کیس کو منطقی انجام تک ضرور پہنچنے دیا جائے۔

ای پیپر-دی نیشن