شیر خوار سے شیر خور تک
بعض فلموں پر وارننگ لکھی ہوتی ہے کہ خبردار !اسے کمزور دل اصحاب نہ دیکھیں، میری خادمِ اعلی سے گزارش ہے کہ وہ اس کالم کو نہ پڑھیں۔ وہ بہت نرم دل واقع ہوئے ہیں اور اور ہر کرائم سین پر ہیلی کاپٹر جا اتارتے ہیں، جس سے بہر حال ان کی قلبی صحت پربرا اثر پڑرہاہے۔
شیر خوار وہ ہیں جن پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا جا تا ہے اور شیر خور وہ ہیں جو دودھ پیتے بچوں کا گوشت کھانے کے شوقین ہیں، یہ دونوں کام ہمارے ہاں بڑی ڈھٹائی سے ہو رہے ہیں۔
اس ملک میں دعوی یہ کیا جا رہاہے کہ مشرف کے ساتھ انصاف ہو گا اور اسی ملک میں یہ دعوی کیا گیا کہ وزیر اعظم گیلانی کو معزول اور نااہل قرار دے کر انصاف کا علم بلند کیا گیا۔
پچھلے دنوں پہلا واقعہ تخت لاہور کے ایک سیشن جج کی عدالت میں پیش آیا۔ جج کے سامنے ایک شیر خوار بچے کو پیش کیا گیا، اس بچے پر اقدام قتل کا الزام تھا۔ اس بچے کے ہاتھ میں دودھ کی بوتل تھی جو بار بار اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتی تھی۔ بی بی سی کے مطابق لندن کے ایک کیوسی صبغت اللہ قادری کا کہنا ہے کہ سیشن جج کے علم میں تھا کہ ملکی قوانین کے تحت سات برس سے کم عمر کے بچے پر مجرمانہ مقدمہ قائم نہیں ہو سکتا لیکن اس قانونی پابندی کا لحاظ کئے بغیر جج نے اس بچے کی ضمانت لی اورضمانتی مچلکوں پر اس کے انگوٹھوں کے نشان ثبت کروائے۔ صبغت اللہ قادری نے کہا ہے کہ یہ اقدام بچے کے ساتھ عدالتی تشدد کے مترادف ہے۔
اخبارات کی تصویروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بچے کو جس طرح کاغذوں پرانگوٹھے لگانے کے لئے الٹایا گیا تووہ چیخ پکار کر رہا تھا۔ اسے کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ ایک ایسی جگہ پر ہے جہاں اس کے ساتھ انصاف کیا جانا ہے یا ایسی جگہ پر ہے جہاں اسے کسی کا جبرکا نشانہ بننا ہے۔ سیشن جج نے ایسا کیوں کیا، ملکی قانون کیا کہتا ہے اور اس کی تشریح کیا ہے، اس کا فیصلہ بہرحال عدالت نے کرنا ہوتا ہے، سیشن جج کے پاس اپنے اقدام کی ضرور کوئی معقول وجہ ہو گی لیکن اس واقعے کو دنیا بھر میں پھیلایا گیا جس سے پاکستان کی سبکی ہوئی۔ جو لوگ سوچتے تھے کہ مشرف کے خلاف عدلیہ کی تحریک اور اس میں وکلا کی سرگرم شرکت سے انصاف کے حصول کی راہ ہموار ہوئی، ان کا دعوی غلط ثابت ہوا۔بالکل غلط!
ایک شیر خوار پر اقدام قتل کے مقدمے نے ملک کے نظام انصاف کے پیٹ کو ننگا کر دیا۔
تو پھر عدلیہ تحریک اور وکلا کی جدوجہد سے ملا کیا۔ میں نے کتنے ٹاک شوز میں شرکت کی جن میں یہ دعوے کئے گئے کہ ملک کے مصائب کی وجہ فوجی آمریت ہے ، جس میں لوگوں کو انصاف نہیںملتا اور وہ دہشت گردی پر اُتر آئے ہیں۔ عدلیہ آزاد ہو گئی تو دہشت گردی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ مفروضہ یہ تھا کہ انصاف سے محروم طبقات تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق دہشت گردی کے راستے پر چل پڑے ہیں، اسی پس منظر میں سوات اور مالاکنڈ میں شرعی عدالتیں لگیں اور خواتین پر سر عام کوڑے برسائے گئے۔ سوات کے چوک میں لوگوں کی گردنیں کاٹی گئیں، یہ تھا تیز رفتار انصاف۔ ہمارے فوجیوں کو امریکی جنگ کا ساتھ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، دنیا بھر کے قوانین جنگی قیدیوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں لیکن ہمارے قیدیوں کے سر قلم کئے گئے، ان کے سروں کو فٹ بال بنا کر ٹھوکریں ماری گئیں اور ان کی لاشیں ڈھور ڈنگروں کی طرح پک اپ وین سے گھسیٹ کر سڑک کنارے پھینک دی گئیں۔
ہمارا انصاف یہ ہے کہ ایک شیر خوار بچے کو قتل کے کیس میں پھنسادیا گیا یا شیر خوار بچوں کا گوشت کھانے والوں کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ میں اپنے اور آپ کے دل کی تسلی کے لئے کہتا ہوں کہ ہم بھی امریکہ جیسے ملک سے بدرجہا بہتر ہیں جہاں ایک خاتون نے لگاتار اپنے سات بچوں کو پیدائش کے فوری بعد قتل کر دیا اور ان کی نعشیں تولیوں میں لپیٹ کر گیراج میںچھپا دیں، ہم کم از کم اس انتہائی ترقی یافتہ ملک سے بہت زیادہ مہذب ہیں کہ ابھی صرف ایک بچے کو مقدمے میں پھنسایا ہے اور شاید گنتی کے چند بچوں کو بھون کر تر نوالہ بنایا ہے۔
اس ملک میں اور شاید ہر ملک میں ایک مصیبت توہین عدالت کے قانون کی ہے۔ میرا یہ مو¿قف رہا ہے کہ اگر عدلیہ پر تنقید، توہین کے زمرے میں آتی ہے تو عدلیہ کی تعریف و توصیف اور اس کی قصیدہ خوانی پر بھی گرفت ہونی چاہئے کیونکہ اس سے بھی عدلیہ کو متاثر کیا جاتا ہے۔ جو کالم نویس اور تجزیہ کار عدلیہ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، وہ عدلیہ کی گڈ بکس میں آ جاتے ہیں، ان کو جھٹ پٹ انصاف ملتا ہے۔ ایک کالم نویس نے لکھا کہ فلاںجج صاحب کے ساتھ انہوںنے ناروے تک ہَوائی سفر کیا، راستے میں جج صاحب نے ہر نماز وقت پر ادا کی، اب اس حاشیہ برداری اور قصیدہ خوانی کے بعد اس جج کا بھی تو کوئی اخلاقی فرض بنتا ہے۔ ایک زمانے میں اکرم شیخ وکیلوں کی کسی انجمن کے صدر بنے تو وہ ججوں کے اعزازمیں اواری ہوٹل میں ضیافتیں دینے لگے، میں نے انہیں ایک شب دوستانہ انداز میں ٹوکا کہ آپ ان ججوں کورات کو کھانے کھلاتے ہیں اور دن کو ان کی عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں، وہ مسکرائے اور فلسفہ بگھارا کہ بنچ اور بار میں خوشگوار تعلقات کا ہونا ضروری ہے۔
ہمارے نظام انصاف کا جس دوسرے سانحے سے غلغلہ برپا ہوا ہے، وہ ہے بچوں کا گوشت کھانے والے دو بھائی صاحبان کا پتہ نہیں زندہ بچوں کو ذبح کرتے ہیں یا انہیں زندہ بھونتے ہیں، کہانی تو یہ بنائی گئی ہے کہ قبروں سے لاشیں نکالتے ہیں۔ وہ پہلے بھی پکڑے گئے، ان کے ساتھ انصاف کیا گیا اور وہ رہا ہو گئے۔ وہ دوبارہ اس دھندے میں مصروف ہو گئے۔ نظام انصاف زندہ باد۔ خادمِ اعلی کا پنجاب پائندہ باد۔ رانا ثنااللہ کی بڑھک بازی بھی زندہ باد! یہ معاشرے کی اجتماعی مُردہ دلی کوزندہ دلی میں بدلنے کے لئے بے حد ضروری ہے مگر پچھلے پانچ سال سے وہ قانون کے وزیر چلے آ رہے ہیں اور قانون کی عملداری کا یہ حال کہ قبروں میں بچوں کی لاشیں بھی محفوظ نہیں۔ پیروں سے کسی کو حکم ملتا ہے کہ فلاں فلاںبچے کو ذبح کردو تو لوگ ایسا بھی کر گزرتے ہیں۔
جب کسی معاشرے میں سزا و جزا کا کوئی نظام نہیں ہو گا تو معاشرے پر خونخوار جنات کا غلبہ ہو گا اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں ہوگا تو طوائف الملوکی ہو گی۔ ایک طرف فوجی کور کمانڈرز کی میٹنگ ہوتی ہے، دوسری طرف سیاسی کور کمانڈرز کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ دیکھئے کون کس کو کھاتا ہے۔