ایک ہی صف میں اصلاح، شہناز و ایاز …امام اختر رسول
ہاکی سٹیڈیم کا صدر دفتر تھا، پرہجوم پریس کانفرنس تھی، الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے نمائندے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس پریس کانفرنس میں آصف باجوہ کی سوچ غالب نظر آئی اور اس حوالے سے کچھ سخت سوالات بھی ہوئے۔ ایک بڑا طبقہ سابق کھلاڑیوں مفاد پرستوں کا ٹولہ سمجھتا ہے اور یہ سوچ آصف باجوہ کے دور میں بڑی شدت سے سامنے آئی تھی۔ موجودہ سیکرٹری رانا مجاہد علی اس سوچ کے مکمل طورپر حامی تھے۔پی ایچ ایف کی ایگزیکٹو کمیٹی کے 27ویں اجلاس کے بعد چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے سیکرٹری پی ایچ ایف مجاہد علی خاں آئے۔ ان کیساتھ اصلاح الدین صدیقی، شہناز شیخ بھی تھے۔ 1994ء عالمی کپ اور چیمپئنز ٹرافی کے فاتح کپتان شہباز سینئر پہلے سے ہی موجود تھے۔ پریس کانفرنس میں اہم فیصلوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ ہماری رائے میں یہ سیز فائر کا معاہدہ تھا جو فریقین کے مابین طے پایا اور پھر اس کا اعلان بھی کر دیا گیا۔
اصلاح الدین، شہناز شیخ اور ایاز محمود سمیت کئی ایک سابق اولمپیئن جو قاسم ضیا اور آصف باجوہ کے دور میں تنقید کرتے رہے اب اختر رسول کی مصالحتی کوششوں سے فیڈریشن کا حصہ بن گئے ‘ تنقیدی توپ خانے خاموش ہو گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مفاہمت سے پاکستان ہاکی کو فائدہ ہو گا؟ ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کی قومی دھارے میں شمولیت سے ہم بین الاقوامی ہاکی میںساکھ بحال کر سکیں گے؟ پاکستان میں معیاری کھلاڑیوں کی قلت ہے کیا وہ بحران ختم ہو گا؟ فنڈز کے حوالے سے حالت خاصی پتلی ہے۔ اس میں کسی بہتری کی امید ہے؟ عظیم کھلاڑیوں کی شمولیت سے کیا خزانے میں اضافہ ہو گا؟ بہت سے سوالات ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ صرف سوالات ہی سوالات ہیں تو غلط نہ ہو گا۔
چودھری اختر رسول کا کہنا ہے کہ وہ خود ہاکی سے کوئی پیسہ نہیں لیتے، کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ تمام مخلص افراد جو قومی کھیل کا درد رکھتے ہیں انہیں صورت حال سے بھی آگاہ ہیںوہ اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کردیں ۔
خواجہ ذکاالدین کا کہنا ہے کہ کوچز کے معاملے میں مفاہمت اور مصالحت نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے سینئر ٹیم کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔75 سال کی عمر کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ایسے شعبوں میں ذمہ داری لینے کے بجائے پردے کے پیچھے رہ کر تجربہ منتقل کریں۔
سابق کھلاڑیوں کی فیڈریشن میں آمد خوش آئند تاہم ایک لمبا سفر ابھی باقی ہے۔ اس مفاہمت کا کریڈٹ اختر رسول چودھری کو جاتا ہے، تاہم یہ کسی کو نہ بھولناچاہئے اصل مقصد حمایت حاصل کرنا نہیں بلکہ قومی کھیل کی ترقی ہے۔تاہم فیصلہ سازی میں دوستیاں نبھانے، زبان بندی کروانے اور سمجھوتہ کسی صورت نہیں ہونا چاہئے۔ ایک بات سوچنے والی ہے اور ہاکی والے بھی متفق ہیں کہ معیاری کھلاڑیوں کی کمی ہے اور نچلی سطح کا نظام ٹھیک نہیں لیکن جب بات ذمہ داری کی ہوتی ہے تو سب قومی ٹیم کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
نوید عالم نے 2001ء میں سابق فیڈریشن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا، طاہر زمان بھی ان کے ساتھی تھے، پھرشہناز اصلاح، سمیع ایاز اور قمر ضیاء سمیت کئی اور افراد بھی قافلے میں شامل ہوگئے۔اب وقت بدل رہا ہے بیانات بدل رہے ہیں ،ذمہ داریاں اور چہرے بھی بدل رہے ہیں لیکن کیا بیمار سوچ بدلے گی، طرز فکر اور طرزِ حکمرانی بدلے گا۔ سلیکشن کمیٹی بن گئی، ٹیم انتظامیہ بن گئی، عہدے تقسیم ہوگئے، بننے والی رہ گئی ہے تو صرف قومی ہاکی ٹیم ، وہ فاتح ٹیم جو دنیا پر راج کرے۔ یہ اعزاز کس کے حصے میں آتا ہے فیصلہ وقت کرے گا۔