طالبان کا فائربندی میں توسیع سے انکار اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں قومی سلامتی پر حکومتی عسکری قیادتوں کا اتفاق …… اب مختلف ایشوز پر جاری قیاس آرائیوں کا سلسلہ رک جانا چاہیے
سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خاتمہ اور طالبان سے ملکی آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بات کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے طے کیا ہے کہ ملکی سلامتی اور استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائیگی‘ پاکستان خطہ کے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریگا‘ نہ کسی کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت دی جائیگی۔ گزشتہ روز وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کو یقینی بناکر نہ صرف خطے بلکہ ملک کو بھی امن کا گہوارہ بنائیں گے اور دنیا میں پاکستان کی انتہاپسندی اور دہشت گردی سے متاثرہ ساکھ کو دوبارہ نیک نامی میں تبدیل کیا جائیگا۔ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت چار وفاقی وزراء اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف‘ بحری اور فضائی افواج کے سربراہان‘ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی نے بھی شرکت کی۔
سابق صدر جنرل (ر) مشرف کیخلاف غداری کیس کے حوالے سے سیاسی اور عسکری قیادت میں پیدا ہونیوالی تلخی کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا جس میں سیاسی اور عسکری قیادتوں کا آمنا سامنا ہوا جبکہ وزیراعظم میاں نوازشریف آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی دعوت پر کل بروز ہفتہ کاکول میں ہونیوالی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرینگے۔ قریبی حکومتی ذرائع کے مطابق اس اجلاس کا تین نکاتی ایجنڈہ تھا جو طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی‘ افغانستان میں انتخابات کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال اور ایران سے سرحدی معاملات میں ہونیوالی حالیہ کشیدگی اور ایرانی قیادت کے پاکستان پر الزامات پر غور سے متعلق تھا۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس تناظر میں واضح کیا کہ پاکستان کسی قسم کے تنازعات میں الجھنے کے بجائے ترقی کے راستے کو اپنائے گا۔ اگرچہ اجلاس کے بعد کسی بھی جانب سے ایسا کوئی عندیہ نہیں ملا کہ اجلاس میں مشرف غداری کیس کے معاملہ اور اس حوالے سے حکومت اور عسکری قیادت کے مابین پیدا ہونیوالی تلخیوں پر بھی غور ہوا ہے یا نہیں‘ البتہ اجلاس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ تمام اداروں کے وقار کو مقدم رکھا جائیگا اور سب ادارے ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلیں گے تو بادی النظر میں یہ بات مشرف کیس کے پس منظر میں ہی کہی گئی ہوگی۔ اگر اجلاس میں عسکری قیادت کی جانب سے ایک بار پھر حکومت کو یقین دلایا گیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات پر وہ جو بھی فیصلہ کریگی‘ عسکری ادارے اس پر عمل کرینگے تو اس حوالے سے حکومت اور عسکری قیادت کے مابین کشیدگی اور انکے ایک صفحہ پر نہ ہونے سے متعلق بعض حلقوں کے پراپیگنڈے کی نفی ہوتی ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اگر اجلاس میں یہ دوٹوک اعلان کیا ہے کہ فوج ملکی سلامتی اور تحفظ کیلئے ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تیار ہے تو یہ بطور ادارہ ملک کی مسلح افواج کی جانب سے آئین و قانون کے تقاضے کے تحت ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری نبھانے کا عہد ہے جس میں خطے کے موجودہ حالات کی روشنی میں کسی کوتاہی یا کمی کی کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ اس تناظر میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جس میں پاک چین معاہدوں سے لے کر یورو بانڈ کے اجراء اور جی تھری سپیکٹرم کی نیلامی سمیت ملک کی تجارتی‘ اقتصادی اور سرمایہ کاری کی پالیسیاں بھی زیر غور آئیں۔ وطن عزیز کو شاہراہ ترقی کی جانب گامزن کرنے میں اہم پیش رفت ہو سکتا ہے۔ ملک کی اقتصادی ترقی اور سلامتی کے حوالے سے یہ سال اس لئے بھی زیادہ اہم ہے کہ افغانستان کے صدارتی انتخاب کے بعد نئی افغان قیادت کے دور میں نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے تمام مراحل مکمل ہونے ہیں جس کے بعد علاقائی امن کی بحالی کے معاملات طے ہونے ہیں جس کیلئے نئی کابل حکومت اور اسلام آباد کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ کی ضرورت پڑیگی چنانچہ اسی تناظر میں قومی سلامتی کے اجلاس میں علاقائی امن و ترقی کی ممکنہ حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا جبکہ بھارتی عام انتخابات کے بعد وہاں حکومتی قیادت کی تبدیلی کے اثرات بھی پاکستان بھارت تعلقات پر مرتب ہونے ہیں۔ حکومت کی جانب سے پہلے ہی عندیہ دیا جا چکا ہے کہ پاکستان بھارت تنازعات پر بھارت سے مذاکرات کا معاملہ وہاں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد طے کیا جائیگا‘ یقیناً اس اہم ترین معاملے پر حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کا باہم متفق ہونا ضروری ہے جس کیلئے پہلے ہی سے یہ جائزہ لینا ضروری تھا کہ بھارت میں بی جے پی کی حکومت کے قیام کی صورت میں بالخصوص کشمیر ایشو پر اس کا پاکستان کے ساتھ رویہ کس نوعیت کا ہو سکتا ہے۔ اسکے علاوہ برادر پڑوسی ملک ایران کی جانب سے اسکے سکیورٹی گارڈز کے اغواء کے معاملہ میں جس طرح پاکستان کو رگیدنے اور اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ وہ بھی ملک کی سلامتی کے تناظر میں حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کیلئے غور طلب تھا۔ اجلاس میں ان تمام علاقائی معاملات پر سیرحاصل بحث اور ممکنہ نتائج پر غور کرکے ہی یہ طے کیا گیا ہے کہ پاکستان کسی کے تنازعات میں الجھنے کے بجائے ترقی کے راستے کو اپنائے گا۔
چونکہ اس اجلاس سے پہلے کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے فائربندی میں مزید توسیع نہ کرنے کا اعلان کیا جا چکا تھا اس لئے اس اہم معاملہ پر غور بھی اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ بنا۔ اس تناظر میں آرمی چیف کی جانب سے اجلاس میں کرائی گئی یہ یقین دہانی خوش آئند ہے کہ طالبان کے حوالے سے حکومت جو بھی فیصلہ کریگی‘ اس کا ساتھ دیا جائیگا۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے اجلاس میں یہ بتایا ہے کہ ان کا طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے مسلسل رابطہ ہے جو طالبان قیادت پر فائربندی ختم کرنے کا اعلان واپس لینے پر زور ڈال رہے ہیں۔ تاہم ملکی قومی سلامتی کے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے طالبان کے اب تک کے طرزعمل پر بھی ضرور غور کیا گیا ہو گا۔ چودھری نثارعلی خان خود اعتراف کر رہے ہیں کہ حکومت نے طالبان کے متعدد غیرعسکری قیدی رہا کئے ہیں جبکہ طالبان کی قید میں موجود ہمارے شہریوں میں سے اب تک کسی ایک کو بھی رہا نہیں کیا گیا اور شدت پسندوں کی دیگر تنظیموں کے نام پر دہشت گردی کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رکھا گیا ہے۔ اگر طالبان اپنے لئے سہولتیں اور مراعات حاصل کرکے بھی فائربندی برقرار کھنے پر آمادہ نہیں جس پر عسکری قیادتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی کیا جا چکا ہے تو کیا حکومتی ریاستی اتھارٹی کو عملاً سرنڈر کرکے مذاکرات کی کامیابی کی خواہش پوری کی جائیگی۔ اگر طالبان ترجمان شاہداللہ شاہد نے ملک میں دہشت گردی کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کیلئے ٹی ٹی پی کا ’’اپریشن روٹ‘‘ بھی جاری کردیا ہے اور یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھا ہے کہ حکومت کے پاس ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے کا اختیار ہی موجود نہیں ہے تو ملک میں دہشت گردی کا راستہ کھولنے والی اس اعلانیہ دھمکی کے بعد طالبان کے ان عزائم کا ریاستی طاقت کے ذریعے توڑ کرنا ہی ملکی اور قومی سلامتی کا تقاضا ہے۔ اس بارے میں یقیناً قومی سلامتی کے اجلاس میں ہر پہلو پر مفصل غور کیا گیا ہو گا اور کوئی قابل عمل حکمت عملی ہی طے کی گئی ہو گی جس پر عسکری قیادت نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اگر کراچی میں منعقدہ علماء مشائخ کنونشن میں دہشت گردی کو حرام قرار دیتے ہوئے تمام مذاہب اور مسالک سے تشدد کیخلاف متحد ہونے کا تقاضا کیا گیا ہے تو اس سرزمین پر دہشت گردوں کے عزائم پورے نہ ہونے دینے کے یہی سازگار حالات ہیں کیونکہ مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی حکومتی کوششوں کے دوران بھی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے سے ان وارداتوں میں ملوث عناصر کے عزائم پوری قوم کے سامنے آچکے ہیں چنانچہ انکے ساتھ کسی قسم کی ہمدردی کا جذبہ اب مفقود ہو چکا ہے۔ اگر علماء کرام اور مشائخ عظام بھی دہشت گردوں کی سرکوبی کے اقدامات کے ساتھ کھڑے ہونگے تو اس سے ملک میں دہشت گردوں کا راستہ مستقل طور پر بند کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام مقاصد حاصل کرنے کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ایک اہم پیش رفت ثابت ہو گا۔ اگر مشرف غداری کیس کے معاملہ میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو تسلیم کرلیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ سیاسی‘ حکومتی اور عسکری قیادتوں کی ہم آہنگی کے ساتھ انصاف کی عملداری کے ذریعے شاہراہِ جمہوریت پر چل کر ملک کو مسائل و مصائب کے گرداب سے نہ نکالا جا سکے۔ ہمیں آج اس اتحاد و یگانگت کی ہی ضرورت ہے جس میں اب بے معنی قیاس آرائیوں کا سلسلہ رک جانا چاہیے۔