ایڈورڈ کالج پشاور کے پرنسپل کو ہٹانے، نئے کی تعیناتی میں تاخیر پر مسیحی برادری کی تنقید
پشاور (سید عالم خان/ دی نیشن رپورٹ) ایڈورڈ کالج کے پرنسپل کو عہدے سے ہٹانے اور ان کی جگہ مناسب شخص کو تعینات کرنے کے عمل میں تاخیر مسیحی برادری میں تنقید کا باعث بن چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے پرنسپل کے عہدے کی خالی سیٹ کو پر کرنے کے اشتہارات جیسے اقدام کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پشاور کی مسیحی برادری کا خیال ہے کہ غیرملکی کی بجائے مقامی شخص کی بطور پرنسپل ایڈورڈ کالج تعیناتی قوانین کے خلاف ہے۔ ایڈورڈ کالج پشاور میں پرنسپل کا عہدہ دسمبر سے خالی پڑا ہے۔ بورڈ آف گورنر کے اجلاس میں جہاں سابق پرنسپل کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تھا وہیں پروفیسر ڈاکٹر محمد رسول جان کی سربراہی میں نئے پرنسپل کی تعیناتی کیلئے سرچ کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔ 10 اپریل تک امیدواروں کو درخواستیں جمع کروانے کا کہا گیا تھا تاہم اس دوران گورنر خیبر پی کے کی تبدیلی کے باعث بھی کچھ تاخیر نہیں ہوئی۔ ذرائع کے مطابق بشپ ہیمفری سرفراز پیٹر پرنسپل کو ہٹانے اور نئے کی تعیناتی کے اقدام پر خوش نہیں تھے۔ دی نیشن سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ڈسٹرکٹ کوارڈینیٹر منیارٹی فیاض فیاض کنول نے کہا کہ ایڈورڈ کالج میں پرنسپل کی تعیناتی کے صوبائی حکومت کے اشتہارات غیر قانونی ہیں اور قواعد و ضوابط کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایڈورڈ کالج کے پرنسپل کی تعیناتی اور اسے عہدے سے ہٹانے کا اختیار بشپ آف پشاور کا ہے۔ فیاض کنول نے مزید کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 اور 36 اقلیتوں کو اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق ادارے چلانے کی اجازت دیتا ہے۔ انہوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ قوانین کی پاسداری نہ کی گئی تو عدالت جائیں گے۔