الطاف حسین بھائی پاکستان کیوں آ رہے ہیں
بینظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد پاکستان آئیں، نواز شریف آئے، زرداری صاحب آئے۔ جیل اور جلاوطنی میں فرق نہیں ہے۔ جو وہ جلاوطنی میں کرتے ہیں وہی جیل میں کرتے ہیں اور پھر وہی ”ہم وطنی“ میں کرتے ہیں۔ شہید بی بی قتل ہوئی نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ زرداری صاحب صدر بن گئے۔ مشرف بھی آئے وہ عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں جبکہ مجھے یقین ہے کہ یہ سب ایک ہی ایجنڈے پر آئے یا بھیجے گئے۔ بھیجنے والا بھی ایک ہی ہے۔ یہ تضاد کیا ہے مفاد کیا ہے۔
تو پھر الطاف حسین بھائی جلاوطنی کی ”قید“ سے نکل کے آ رہے ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت کرے۔ حکمران تو وہ بننا نہیں چاہتے۔ اس طرح بھی وہ حکمرانوں سے زیادہ ہیں۔ کم کون ہے اور کم سے کم کون ہے؟
الطاف حسین بھائی نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔ ارادہ بھی کیا ہے۔ فیصلے اور ارادے میں فرق ہے۔ ورنہ ایم کیو ایم والے انہیں آنے نہ دیتے تھے۔ اب الطاف بھائی آ رہے ہیں تو ایم کیو ایم والے بھی ان کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ ہم بھی ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس کے لئے برادرم شیخ رشید نے بھی بڑی خوشدلی سے ان کی آمد کو برادرم مبشر لقمان سے گفتگو کرتے ہوئے بہت اچھی خبر قرار دیا ہے۔ کاش یہ خوشخبری ثابت ہو۔ ویسی خوشخبری نہیں جو بری خبروں کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ شیخ صاحب کی بہت سی باتیں مجھے پسند ہیں۔ ان سے اختلاف بھی ہے مگر اختلاف کا حق اس کو ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہو اور میں شیخ صاحب کا معترف ہوں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے وہ مجید نظامی کو اپنا محسن سمجھتے ہیں اور نظامی صاحب بھی ان کے ساتھ کئی باتوں کے لئے شفقت کرتے ہیں۔ نواز شریف کے حوالے سے بھی شیخ صاحب کے کئی فیصلوں کودرست سمجھتے ہیں۔ برادرم مبشر لقمان نے شیخ رشید تک میرا پیغام پہنچایا کہ تم بھی سات آٹھ بار وزیر رہے ہو مگر یہ کریڈٹ ضرور ہے کہ شیخ صاحب وزیر شذیر نہیں رہے۔ ان کی کریڈیبلٹی کے لئے میں بات ابھی نہیں کرتا۔ وہ آج کل اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں اور عمران خان کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ عمران کا دفاع تحریک انصاف والے بھی اتنا نہیں کر رہے۔ کبھی کبھی وہ عمران خان سے بھی اختلاف کر لیا کریں۔ وہ آج کل مایوسی، جلدبازی اور جمہوری آمریت کے راستے میں سب پارٹی لیڈروں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ وہ سب کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں مگر آگے نہیں نکل پاتے۔ شیخ صاحب کبھی عمران کی من مانیوں اور لن ترانیوں کو کم نہیں کر سکیں گے۔ وہ عمران کی نگرانیوں کا کام کر رہے ہیں۔ یہی کام نگرانوں نے عمران کے ساتھ ہاتھ کرکے کیا ہے۔ اس وقت شیخ صاحب اپوزیشن کے آدمی ہیں جو کہیں خواہ غلط کہیں کھلے دل سے کھلے ڈھلے انداز میں بات کرتے ہیں۔
انہوں نے مبشر لقمان کو بتایا کہ گارڈن کالج پنڈی میں وہ میرے سٹوڈنٹ تھے۔ پرویز رشید بھی تھے اور نیر بخاری بھی۔ نیر بخاری سے تعلق نہیں رہا۔ انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں اپنی طرف سے بتایا تو میں حیران ہوا۔ ان کا انداز مودبانہ تھا۔ پرویز رشید تعلق اور بے تعلقی بلکہ لاتعلقی میں فرق نہیں کرتا۔ اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ نواز شریف کے سامنے خاموش اور نیازمند رہتا ہے۔ اس کی یہ بات اچھی ہے کہ وہ پروٹوکول کا قائل نہیں ہے اور اپنے پہلے سیاسی لیڈر بھٹو صاحب کو اب بھی یاد کر لیتا ہے۔
شکر ہے شیخ صاحب نے وضاحت کر دی کہ اجمل نیازی ہم سے کچھ زیادہ بڑے نہیں۔ ان کی پہلی پوسٹنگ تھی۔ وہ دوستوں کی طرح تھے اور دوستانہ مروت ہے کہ وہ کبھی ہم پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ پرویز رشید تب سٹوڈنٹس یونین کے صدارتی الیکشن میں شیخ صاحب سے اچھی طرح ہار گئے تھے۔ بہرحال شیخ صاحب تب بھی اور اب بھی ایک بڑے اور کھرے سیاستدان ہیں۔ سیاست کا کھرا سچ بیان کرتے ہیں انہیں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ پرویز رشید اگر وزیر اطلاعات شیخ رشید کی ضد میں بنے ہیں یا بنائے گئے ہیں تو ہم ان کے لئے بھی دعا گو ہیں مگر پچھلے فوجی دور میں پرویز رشید کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی۔ ایک سویلین حکمران بھٹو صاحب نے یہی زیادتی بزرگوار میاں طفیل محمد سے بھی کرائی تھی۔ برادرم خواجہ سعد رفیق کے عظیم والد خواجہ رفیق بھی بھٹو دور میں شہید ہوئے تھے۔ یہ کھلی ”جمہوری“ دہشت گردی تھی۔ پھر بھٹو صاحب کو اپنے ہی آرمی چیف جنرل ضیاءنے پھانسی دلوائی۔ اس میں عدالتیں بھی شریک ہوئیں اور یہ عدالتی قتل کے طور پر مشہور ہوا۔ اسلامی حکمران یہ سب کچھ قانون بلکہ اسلامی قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ عظیم مسلمان بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے بڑے بڑے قتل ”قانونی جواز“ کے ساتھ کروائے تھے۔
پھر جمہوری اور فوجی معاملات میں کچھ تناﺅ ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔ خواجہ سعد رفیق کبھی بھٹو صاحب کے لئے بھی مقدمہ قتل بنوائیں۔ آج کل وہ نواز شریف کے حکم پر پیپلز پارٹی کے خلاف بھی زبان بند رکھے ہوئے ہیں۔ میری خواہش یہ بھی ہے کہ کوئی ن لیگی نواز شریف کی اس دعا پر آمین ہی کہہ دے جو جنرل ضیاءنے نواز شریف کے لئے مانگی تھی کہ اللہ کرے میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
بات الطاف بھائی کی پاکستان آمد کے موضوع پر شروع ہوئی تھی۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف کے لئے مشکل بن کے آ رہے ہیں۔ اسی لئے کچھ جیالے ان کی آمد کا خوشامد کی طرح ذکر کر رہے ہیں۔ ایک اور دھماکہ الطاف بھائی کی ہدایت پر ایم کیو ایم نے کیا ہے۔ سینٹ میں نواز شریف کی حاضری کو یقینی بنانے کے لئے قرارداد منظور کروا لی ہے۔ وہ آج تک سینٹ میں نہیں آئے۔ شاید اسی لئے کہ فوجی حکومت کے آنے کے بعد قومی اسمبلی تو ٹوٹ جاتی ہے سینٹ نہیں ٹوٹتی۔ سینٹ قومی اسمبلی سے زیادہ جمہوری ادارہ ہے۔ سینٹ کا چیئرمین قائم مقام صدر بنتا ہے۔ ایک کام تو اچھا کیا ”صدر“ زرداری نے کہ نیر بخاری کو چیئرمین سینٹ بنا دیا۔ اس پر رضا ربانی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ ایک سنیٹر سے پوچھا گیا کہ ہماری حاضری بھی سینٹ میں کم کم ہوتی ہے۔ اب کیا ہو گا۔ اس نے کہا کہ اب تو حضوری ہو گی جسے جی حضوری کہتے ہیں۔ مشرف بھی کبھی سینٹ میں نہ آیا تھا۔ نواز شریف بھی نہیں آئے تو فوجی اور سیاسی حکمران میں فرق کیا ہوا۔
سنا ہے انگلستان میں الطاف بھائی کو خواہ مخواہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ ”تنگ آمد بجنگ آمد“ اور یہ جنگ پاکستان میں کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ دنوں بعد الطاف بھائی کو پاکستان نہ آنے دیا جائے تو ان سے گزارش ہے کہ وہ جلدی جلدی آ جائیں۔ مگر اب معاملہ پاکستان کی وزارت داخلہ کے پاس ہے۔ چودھری نثار کا فیصلہ الطاف بھائی سے یکجان ہو گیا تو پھر کوئی مشکل نہ ہو گی۔
ایک آخری بات کہ اب برطانیہ میں الطاف بھائی جس قدر کام آ سکتے تھے۔ آئے۔ اب وہ شاید پاکستان بالخصوص کراچی میں زیادہ کام کے آدمی ہوں گے۔ کراچی بہت اہم ہے۔ میرا خیال ہے کہ الطاف بھائی سندھیوں کی قیادت کے لئے تیار ہیں۔ یہ بھی بہت اہم بات ہے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ وہ پاکستانیوں کی قیادت کریں اور وہ یہ کام بھی کر سکتے ہیں۔ وہ لندن میں رہ کر فوج کو دعوت دیتے ہیں۔ یہ کام بھی پاکستان میں ”خوب“ ہو سکتا ہے۔ خاص اطلاع یہ ہے کہ عمران، طاہرالقادری، چودھری پرویز الٰہی، الطاف حسین اور مشرف اتحاد بنا رہے ہیں۔