ازخود نوٹسز میں اداروں کے اختیارات کا توازن برقرار رہنا چاہئے: عالمی جوڈیشل کانفرنس‘ بنیادی حقوق کا تحفظ کرینگے‘ لاپتہ افراد کے مقدمات پر کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) بین الاقوامی عدالتی کانفرنس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں عدالتیں آئین کی بالادستی کیلئے کردار ادا کرتی ہیں۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی جائزہ آئین کو متحرک دستاویز کے طورپر محفوظ رکھتا ہے۔ عدالتی جائزہ صحت، خوراک اور رہائش جیسے انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، عدالتی نظام کے ذریعے معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ ازخود نوٹسز میں اداروں کے اختیارات کا توازن برقرار رکھنا چاہئے، عدالتی اختیارات کے استعمال سے انتظامی پالیسیاں متاثر نہیں ہونی چاہئیں، عوام کا منتخب اداروں پر قانون سازی کیلئے اعتماد کا تقدس ملحوظ خاطر رہنا چاہئے، انسانی حقوق کے سلسلے میں عدلیہ کی نگرانی کا کردار لامحدود نہیں ہونا چاہئے۔ عدلیہ کو معاشرے میں برداشت کے فروغ کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ فریقین کے سماجی، لسانی، نسلی، منفی حوالوں کے بارے میں حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایماندار اور انصاف کی فراہمی کیلئے پُرعزم شخصیات کو جج مقرر کیا جائے جبکہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ جج آئین وقانون اوراپنی دانش کے مطابق فیصلے کرتے ہیں تاہم انہیں پالیسیوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ مقدمات کے فیصلوں کیلئے پالیسیاں نہیں بناتی بلکہ ہر کیس کا فیصلہ آئین و قانون کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کا ہر جج بذاتِ خود ایک سپریم کورٹ ہوتا ہے اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتا ہے تاہم ججوں کو پالیسیوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا، وہ آزاد مشن پر آئین و قانون اور اپنی دانش کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ لاپتہ افراد کیس سے متعلق پوچھے گئے سوال پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات پر نہ کوئی پالیسی بنائی گئی ہے اور نہ ہی یہ معاملہ کبھی فل کورٹ اجلاس میں زیرغور لایا گیا بلکہ ہر کیس کو اسکی میرٹ اور آئین وقانون کے مطابق دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ کانفرنس سے خطاب میں جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کہنا تھاکہ عوام کے عدلیہ پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اوراب ہمارا یہ فرض ہے کہ بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں۔ ماتحت عدالتیں بھی شہری حقوق کیلئے کام کریں تاکہ ہم عوام کے بنیادی حقوق کو مزید یقینی بناسکیں۔ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ آئین اور قانون کی بالادستی یقینی بنائی جائیگی، جوڈیشل کانفرنس کی تجاویز سے استفادہ کریں گے۔ عدالتی کانفرنس کے شرکاء نے پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی سمیت مختلف موضوعات پراظہارخیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین اورقانون پرعمل درآمد صرف عدلیہ، ججز اوروکلا ء کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہرریاستی ادارے اور ہر شہری کافرض ہے۔ سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے جج شیرف ٹام ول نے تحمل وبرداشت کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار اورجسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں گروپ ون میں اظہارخیال کرتے ہوئے معاشرے میں رواداری اورتحمل کے فروغ کی ضرورت پرزوردیاہے اور کہا کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات باعث تشویش ہیں جن کے سدباب کیلئے عدلیہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے کہہ سکتی ہے ان کاکہناتھا کہ پاکستان میں فرقہ ورانہ دہشگردی کی وجوہات مختلف ہیں جبکہ ہمارے ہا ں دوفٹ بال کلبوں میں میچ کے دوران جھگڑے سے فرقہ ورانہ دہشت گردی شروع ہوجاتی ہے جس میں لاتعداد انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ جسٹس جوادایس خواجہ کی سربراہی میں انتظامی اقدامات پر عدالتی نظرثانی کے حوالے سے قائم گروپ تھری میں اظہار خیال کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی قریب میں جوکچھ کیا وہ حکمرانوں کوقانون کی حکمرانی میں لانے کیلئے کیاہے، سپریم کورٹ کے اقدامات کے باعث قومی خزانے میں 700 ارب روپے کی خطیررقم واپس لائی گئی ہے۔ انکاکہنا تھاکہ عدلیہ کے پاس بندوق، پیسہ یاانتظامی اختیارات نہیں ہوتے اسلئے وہ صرف فیصلے ہی کرتے ہیں او رکسی معاشرے میںجب عوام پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ کی جانب دیکھتی ہے تو عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ سابق گورنرسٹیٹ بینک ڈاکٹرعشرت حسین نے اظہار خیال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا اورکہاکہ سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں کے باعث پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری رک گئی۔ انسانی حقوق کے متعلق گروپ میں اظہارخیال کرتے ہوئے مقررین نے کہاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ایک واقعہ سے ملک کی بنی بنائی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔