مزدور کی مزدوری …… اس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں
عروضہ اسلم …… گورنمنٹ فاطمہ جناح کالج، لاہور
مزدوروں کا عالمی دن ہر سال پوری دنیا میں منایا جاتا ہے جو کہ کارکنوں کی سماجی اور اقتصادی کامیابیوں کی خوشیوں کو منانے کے لئے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہ دن یوم مئی اور بین الاقوا می ورکرز کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے یورپ میں یہ دن بنیادی طور پر زیادہ اہم ہے لیبر ڈے پاکستان میں عوامی چھٹی کا دن ہے جو ریلیز مارچیز لیبر کارکن یونین کے احتجاج کے طور پر منایا جاتا ہے یہ بعض اوقات مئی ڈے کے نام سے منایا جاتا ہے جو کہ یکم مئی کو آتی ہے۔ پاکستان کی پہلی لیبر پالیسی کے تحت یکم مئی کو سرکاری تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا جس میں 1972ء میں وضع کیا گیا تھا کہ یہ پالیسی بھی سوشل سیکیورٹی نیٹ ورک اور ورکر ویلیفئر فنڈ کے لئے تیار کی گئی ہے پاکستان کا آئین بھی لیبر کے حقوق کے بارے میں مختلف دفعات اور مضامین پر مشتمل ہے آئین پاکستان کے تحت انسانی اور سماجی حقوق کو تسلیم کیا گیا۔ پاکستان میں یکم مئی کو لیبر ڈے کے موقع تمام سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں، فیکٹریوں اور تعلیمی اداروں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ مزدور جو دو وقت کی روٹی کے لئے ترستا ہے اور ایک دن کے لئے اس کے گھر پر فاقہ مسلط کر دیا جاتا ہے پاکستان میں اگرچہ مزدوروں کے حقوق پر بہت واویلا کی جاتی ہے مگر ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا مزدوروں کے لئے آج کے مہنگائی کے زمانے میں اپنا گھر بار چلانا انتہائی مشکل کام ہے دن بھر کی محنت مشقت کرنے کے بعد دن کے اختتام پر بہت کم اجرت ملتی ہے اس کم اجرت کے ساتھ ہی وہ اپنے گھر کے نظام کو چلاتا ہے دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد مزدور کے گھر کا چلہا جلتا ہے اور وہ اپنی بھوک کی طلب کو تسکین دیتا ہے اتنی کم اجرت کے بعد بھی مزدور کسی سے گلہ شکوہ نہیں کرتا مزدور کی محنت کی بدولت ہی دوسرے لوگوں کو اپنے گھر کی چھت نصیب ہوتی ہے مگر مزدور جو کہ دو وقت کی روٹی کے لئے سخت تگ و دو کرتا ہے اس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا مزدور ساری زندگی اپنے گھر کی جستجو کی آس لے کر منوں مٹی تلے دب جاتا ہے اور اس کی آرزو آرزو ہی رہ جاتی ہے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور اپنے مالک کے لاکھوں کے قرضے تلے دبے ہوتے ہیں کیونکہ ان کی اجرت اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اس قرض کو اتار سکیں اس طرح وہ ساری زندگی اپنے مالک کے قرض کو اتارنے کی چکی میں پستے رہتے ہیں مزدور کا کوئی پرسان حال نہیں یہ معاشرے کا سب سے نچلہ طبقہ تسلیم کیا جاتا ہے جس کوامیروں اور سرکاری امراء جیسی مراعات اور معاوضہ دستیاب نہیں ہوتا۔ مال و زر کی ہوس نے امیر کو امیر کر دیا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشرہ مزدوروں کو ان کے حقوق دینے پر تیار نہیں ہے مزدوروں کی بدولت ہی ملکوں کی معیشت کا پہیہ پٹڑی پر رواں دواں رہتا ہے مگر یہی بنیادی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے ترستے رہتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے لئے صرف آواز ہی نہ اٹھائی جائے بلکہ عملی اقدامات کئے جائیںاور کم از کم ان کی محنت مزدوری کا ہی مناسب معاوضہ دے دیا جائے کہ ان کے گھر کا نظام بہتر طور پر چل سکے آخر مزدور کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے لئے شعر عرض ہے۔
مری قوت و معیشت کونئی راہیں دکھاتی ہے
میری محنت مشقت قوم کی قسمت بناتی ہے